کویت سٹی 02 جون: روزنامہ عرب ٹائمز کے با خبر سکیورٹی ذرائع کی رپورٹ کے مطابق 120,000 تارکین وطن کو بلیک لسٹ کر دیا گیا ہے حتیٰ کہ ان کی طرف سے جرمانے ادا کرنے کے باوجود بھی ان کے اقامے نہیں لگیں گے۔
تفصیلات کے مطابق روزنامہ کے باخبر سیکیورٹی ذرائع نے ایک حیران کن انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ وزارت داخلہ اور وزارت سماجی امور کے سسٹم میں رجسٹرڈ 120،000 رہائشی قانون کی خلاف ورزی کرنے والے جرمانہ ادا کرنے کے باوجود بھی اپنی رہائش گاہ کی تجدید نہیں کرسکیں گے۔ جس کی رقم تقریبا 72 ملین کویتی دینا بتائی گئی ہے۔
انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ چاہے وہ کتنے ہی عرصے تک غائب رہیں یا ملک میں چھپے رہیں ان تارکین وطن کی قسمت جلاوطنی کے سوا کچھ نہیں۔ ذرائع نے واضح کیا کہ اقامہ خلاف ورزی کرنے والوں کے ناموں کو سسٹم میں بلیک لسٹ کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اپریل میں حکومت کی طرف سے دی گئی ایک ماہ کی عام معافی (چھوٹ) کے دوران خود کو متعلقہ اتھارٹی کے حوالے نہیں کیا تھا چونکہ ایک انسانی ہمدردی کے تحت انہیں ملک چھوڑنے کی اجازت بھی دی گئی تھی جبکہ جرمانے اور سفر کی لاگت برداشت کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کویت نے انہیں قانونی طور پر ملک واپس آنے کی اجازت بھی دی تھی تاہم ان خلاف ورزی کرنے والوں نے وزارت داخلہ کی طرف سے شروع کی جانے والی بار بار انتباہات اور متعدد اپیلوں کو نظرانداز کر دیا۔ ان خلاف ورزی کرنے والوں کی تفصیلات کا مطالعہ کرنے کے بعد پتہ چلا کہ ان میں سے بیشتر کئی سالوں سے غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم ہیں۔ انہوں نے ماضی میں بھی اسی طرح کی عام معافی کو نظرانداز کیا اور غیر قانونی طور پر سیکیورٹی اپریٹس کی نظر سے دور رہے۔
120،000 خلاف ورزی کرنے والوں کا تعلق پوری دنیا میں 15 سے زیادہ قومیتوں سے ہے جن میں:
بھارتی تقریبا 30،000 خلاف ورزی کرنے والوں کے ساتھ سب سے آگے ہیں اس کے بعد بنگلہ دیشی 25،000، مصری 20،000، سری لنکا 10،000، فلپائن 10،000، شامی 9،000، ایتھوپیا 8،000، پاکستانی 4،000 اور انڈونیشی 4،000 کے ساتھ دیگر قومیں شامل ہیں۔
ان پر واجب الادا جرمانے کا تخمینہ لگ بھگ 72 ملین کویتی دینار ہے۔ ہر خلاف ورزی کرنے والے کو 600 دینار کی رقم ادا کرنا ہوگی تاہم ذرائع نے اشارہ کیا کہ رہائش پزیر 15،000 ایسے غیر قانونی افراد ہیں جو دیگر قابل قبول وجوہات کے علاوہ سفری پابندی یا عدلیہ میں زیر التوا مقدمہ جیسی پابندیوں کی وجہ سے عام معافی (چھوٹ) سے فائدہ نہ اٹھانے کے باوجود رہائش گاہوں کی تجدید کے اہل ہیں۔
حوالہ: عرب ٹائمز