کویت اردو نیوز 23 جنوری: کویتی شہری نے ہیٹر کے پاس سوئے ہوئے اپنے دو ملازمین کو بڑی دلیری کے ساتھ یقینی موت سے بچا لیا۔
کویت میں حالیہ دنوں میں پڑنے والی شدید سردی شہریوں اور رہائشیوں کی برداشت سے باہر ہو گئی جبکہ سردی کی شدت سے صحرائی علاقوں کا درجہ حرارت منفی تک پہنچ چکا ہے۔ سردی کی شدت کو کم کرنے کی غرض سے کوئلے کے ہیٹر کے پاس سوئے ہوئے افراد کمرے میں پھیلی زہریلی گیس کے سبب بے ہوش ہو گئے لیکن ان کی بے ہوشی ایک مقدار تک محدود تھی جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ یقینی طور پر خطرناک ثابت ہو سکتی تھی اور موت کے منہ میں دھکیل سکتی تھی۔ متاثرین کو فروانیہ اسپتال میں ابتدائی طبی امداد دی گئی جبکہ ان میں سے ایک کو انتہائی نگہداشت میں داخل کیا گیا۔ متاثرین کو آکسیجن کی کمی اور کاربن مونو آکسائیڈ کو سانس لینے کے نتیجے میں سنگین قرار دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق
مغربی عبداللہ المبارک تھانے میں غلطی سے متاثر ہونے کے عنوان سے درج کیے گئے مقدمے کی تفصیلات کے بارے میں ایک سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ وزارت داخلہ کی کارروائیوں سے فروانیہ اسپتال سے ایک رپورٹ موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ 3 متاثرہ افراد دو بھارتی جبکہ ایک کویتی شہری کا دم گھٹنے کا معاملہ سامنے آیا ہے جن میں ایک کی حالت
نازک بتائی گئی۔ متاثرین کو ہسپتال لے کر آنے والے کویتی شہریوں نے پوچھ گچھ کے دوران بتایا کہ وہ صحرائی علاقے میں اپنے کمرے کے اندر بیٹھے تھے۔ انہوں نے ملازمین کو آواز دی تو انہوں نے جواب نہیں دیا چونکہ اسے کمرے میں ان کی موجودگی کا یقین تھا اس لئے وہ اس کمرے میں گیا جس میں وہ ٹھہرے ہوئے تھے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا اور جب انہوں نے کوئی جواب نہ دیا تو اس نے کھڑکی اندر جھانک کر دیکھا اور انہیں سوتے ہوئے پایا۔ ان کے پاس ہی کوئلے کا ہیٹر تھا، جلدی سے کمرے کا دروازہ توڑا گیا، تینوں افراد بیہوشی کی حالت میں تھے لہٰذا انہیں فوری قریبی ہسپتال پہنچایا گیا
پبلک فائر فورس کے ایک ذرائع نے خبردار کیا کہ ہیٹر وغیرہ سے خارج ہونے والی کاربن مونو آکسائیڈ گیس جو کہ ذائقہ، بدبو یا رنگ کے بغیر ایک قاتل گیس ہے پھیپھڑوں پر حملہ کرتی ہے۔
ذرائع نے ہیٹر کو استعمال کے بعد کوئلہ کو زمین میں دفن کرنے کے لیے خیموں سے دور ایک گڑھا بنا کر ان میں ضائع کرنے کا مطالبہ کیا جس کی گہرائی 60 سینٹی میٹر سے کم نہ ہو۔ خیموں میں آگ بجھانے والے آلات اور پاؤڈر کی دستیابی کی اہمیت پر زور دیا تاکہ کسی بھی قسم کے حادثے سے بچا جا سکے۔