صدقہ فطر عید کے دن جس وقت فجر کا وقت آتا ہے اسی وقت واجب ہوتا ہے تو اگر کوئی فجر سے پہلے ہی مر جاتا ہے تو اس پر صدقہ فطر نہیں ہوگا،اس کےمال میں سے نہ دیا جائے۔
بہتر یہی ہے کہ مرد حضرات جس وقت نماز عید کیلئے جاتے ہیں اس سے پہلے ادا کر کے جائیں۔اگر کسی نے عید سے پہلےرمضان ہی میں صدقہ فطر ادا کر دیا تو اب دوبارہ دینا واجب نہیں ہے۔ اگر کوئی دینا بھول جائے تو یہ معاف نہیں ہوا بعد میں بھی دے دیا جانا چاہیے مزید یہ کہ صدقہ فطر اپنی طرف سے ہی دیا جائے کسی اور کی طرف سے دینا واجب نہیں ہے۔ نہ بچوں کی طرف سے، نہ ماں باپ کی طرف سے، نہ بیوی کی طرف سے اور نہ ہی شوہر کی طرف سے۔ اگر کوئی کسی بھی وجہ سے رمضان کے روزے نہیں رکھ پاتا تو اس پر بھی صدقہ فطر واجب ہے۔رمضان کے روزے رکھے تب بھی
اور نہ رکھے تب بھی۔ صدقہ فطر میں گیہوں کے آٹے کی مقدار پونے دو سیر ہے مگر بہتر یہی ہے کہ پورے دو سیر دیا جائے۔ اگر گیہوں اور جو کے علاوہ کوئی اور اناج دے تو اس کی قیمت گیہوں کے برابر ہونی چاہیے۔
حالیہ وقتوں میں اناج کی بجائے اگر اناج کی مالیت کی رقم دے دی جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ ایک آدمی کا فطر ایک ہی مستحق کو دیا جائے یا تھوڑا تھوڑا کر کے کئی فقیروں کو دیا جائے تب بھی جائز ہے اور اگر کئی آدمیوں کا فطر ایک ہی فقیر کو دیا جائے تب بھی جائز ہے۔ یاد رہے کہ صدقہ فطر کے مستحق بھی وہی لوگ ہیں جو زکوٰۃ کے مستحق ہیں۔