کورونا وائرس کی وبا نے جہاں دنیا بھر میں صحت کے حوالے سے ہنگامی حالت پیدا کی وہیں اس کے اثرات سے معیشتیں بھی لڑکھڑا کر رہ گئی ہیں، حتیٰ کہ وہ عرب ممالک جنھیں ہمیشہ امیر ریاستوں کے طور پر دیکھا جاتا تھا، اب قرض مانگنے کی نہج پر آ پہنچے ہیں۔
دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کے باعث تیل کی کھپت میں کمی اور عالمی منڈیوں میں اس کی قیمت میں گراوٹ نے عرب ریاستوں کے سب سے بڑے ذریعہ آمدن کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔
کویت میں قرض کیلئے قانون سازی
خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق کویت میں ایسی قانون سازی کی جا رہی ہے کہ وہ قرضے کے لیے بین الاقوامی منڈی کا در کھٹکھٹا سکے۔
کویت میں قانون ساز چاہتے ہیں کہ حکومت فنڈز اور ادائیگیوں کے معاملے میں زیادہ شفافیت کا مظاہرہ کرے۔ ایک حکومتی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’اگر قرضوں سے متعلق قانون منظور نہیں ہوتا تو حکومت کو صحیح معنوں میں ہر معاملے میں بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘
اس مجوزہ قانون پر کویت کی پارلیمانی کمیٹی میں بحث بھی ہوئی ہے اور اس کے تحت کویت 30 برس میں 20 ارب ڈالر تک قرض لے سکتا ہے۔
عالمی منڈیوں میں اس کی قیمت میں حد گراوٹ نے عرب ریاستوں کے سب سے بڑے ذریعہ آمدن کو لگ بھگ بے مول کر دیا ہے
گذشتہ چند برسوں میں دیگر خلیجی ممالک بھی قرض کے لیے بین الاقومی منڈیوں میں جا چکے ہیں خاص طور پر جب تیل کی قیمتوں میں کمی اور وبا کے باعث عالمی سطی پر تیل کی طلب میں کمی واقع ہوئی۔
کویت وزرا کونسل کا اجلاس جزوی پابندی پر غور
سنیئر صحافی اور تجزیہ کار راشد حسین کا کہتے ہیں کہ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ عرب ممالک کی آمدن کا زیادہ تر انحصار تیل پر ہوتا ہے لیکن اس وقت تیل ماضی کے مقابلے میں تقریباً نصف قیمت پر آ چکا ہے اور اس میں مزید کمی کا امکان ہے۔
کویت قرض لینے کی تیاری تو کر رہا ہے لیکن صحافی راشد حسین کہتے ہیں کہ قرض کے معاملات نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہیں کیونکہ بیشتر اوقات ان پر عائد سود اسے ناقابل واپسی بنا دیتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آج اگر قرض کی رقم جی ڈی پی کا ایک فیصد ہے تو کل یہ دو اور پھر دس فیصد اور بعض معاملات میں تو 100 فیصد تک چلا جاتا ہے۔ یہ ایسا کمبل ہے کہ ایک بار اوڑھ لیں تو اس سے جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے اور عین ممکن ہے کہ ایک دن یہ ممالک بھی وہیں کھڑے ہوں جہاں آج پاکستان اور اس جیسے ممالک ہیں۔‘
کویت ایک ٹیکس فری معاشرہ
صحافی راشد حسین کا کہنا ہے کہ ’کویت ایک ٹیکس فری معاشرہ تھا، وہاں کام کرنے کے لیے غیر ملکیوں پر انحصار کیا جاتا رہا ہے، لیکن اپنی عوام کو ہمیشہ بلند معیار زندگی فراہم کیا گیا۔ اب جبکہ تیل یہ ضرورت پوری نہیں کر سکتا تو لوگوں کی ضروریات کے لیے قرض لینا پڑے گا جو یہ ممالک کسی اور سے لیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان ’عرب ممالک میں عوام کو آسائشیں تو دی گئی لیکن انھیں خود کسی مشکل وقت سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں کیا گیا۔ ‘