کویت اردو نیوز 08 اپریل: حال ہی میں وزارت تعلیم کے اسکولوں میں طالب علموں کے ساتھ دھوکہ دہی کے 40,000 کیسز سامنے آئے ہیں، جس سے صدمے کی لہر دوڑ گئی ہے اور 26 اساتذہ اور محکمہ کے سربراہان کو سوالیہ پرچہ لیک ہونے کے الزام میں ملوث پایا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ملزمان نے تقریباً 30 لاکھ دینار کمائے ہیں جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو سرکاری تعلیمی اسکولوں میں باوقار نگران اور اعلٰی انتظامی عہدوں پر فائز ہیں۔
اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ وہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ یہ بدقسمتی اور خوفناک بھی ہے کہ یہ گھناؤنے عمل جو کہ مستقبل کے ماہرین تعلیم کے لیے مناسب نہیں کیونکہ انہوں نے نوجوان نسل کی راہیں روشن کرنے کے بجائے ایک سیاہ سایہ ڈال دیا ہے جو یقیناً قوم کو برباد کر دے گا۔
کہا جاتا ہے کہ پبلک ایجوکیشن اسکولوں میں اساتذہ اور شعبہ جات کے سربراہوں نے وزارت تعلیم کے زیر انتظام نگران عہدوں کے لیے الیکٹرانک ٹیسٹوں کا جواب دیتے ہوئے "دھوکہ دہی کے جدید طریقے” استعمال کیے ہیں۔
روزنامہ القبس کے باخبر ذرائع نے بتایا کہ وزارت تعلیم کے قائم مقام انڈر سیکرٹری اسامہ السلطان نے کچھ کویتی اساتذہ کے خلاف فیصلے جاری کیے ہیں جو
سپروائزری عہدوں کے لیے الیکٹرانک ٹیسٹ کا جواب دیتے ہوئے جعلی طریقے استعمال کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ انہیں ٹیسٹ میں "صفر” دیا گیا اور ان پر تین سال کے لیے سینئر عہدوں کے لیے درخواست دینے پر پابندی لگا دی گئی۔
ذرائع نے تصدیق کی کہ سزا پانے والے اساتذہ کو مبصرین نے رنگے ہاتھوں پکڑا، کیونکہ وہ دھوکہ دہی کے جدید آلات یعنی موبائل فون اور ہیڈ فون استعمال کر رہے تھے اور انہیں امتحانات کے دوران استعمال کرنے کی کوشش کی۔
ان کے خلاف دھوکہ دہی کی رپورٹ جاری کی گئی۔ واقعے کی رپورٹ پبلک ایجوکیشن سیکٹر کو پیش کر دی گئی تاکہ ضروری کارروائی اور قانونی طریقہ کار اختیار کیا جا سکے تاہم، ذرائع نے کہا کہ سزا روک نہیں ہے کیونکہ یہ 3 سال کی مدت سے زیادہ نہیں ہے اور سزا مکمل کرنےو الا شخص دوبارہ اس عہدے کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔