کویت اردو نیوز، 28 اپریل: پاکستان مسلم لیگ پچھلی حکومت کی وجہ سے ملک کو ہونیوالے نقصانات کو پورا کرنے کے لئے سخت محنت کر رہی ہے اور جلد ہی اس نقصان کو پورا کرلیا جائیگا، ہمارے لئے چند ماہ ہی کٹھن ہیں، ہم اپنی معیشت کو بحال کرنے کے لیے آئی ایم ایف، چین اور سعودی عرب سے قرض لے رہے ہیں،بہت جلد ہم پاکستان کے غریب عوام کو مفت آٹے کی فراہمی ممکن بنائیں گے ، کیونکہ کہا جارہا ہے کہ چند دنوں میں پاکستان میں گندم کا سستا آٹا اور اناج درآمد کیا جا رہا ہے، جبکہ پاکستان میں سستا پیٹرول، ڈیزل اور خام تیل آنے والا ہے ، عوام اس سے اگلے چند ماہ میں ہی لطف اندوز ہوں گے۔
ان خیالات کا اظہار پاکستان مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر اور پاکستان مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا چیپٹر کے صوبائی ترجمان اختیار ولی نے ایک انٹرویو میں کیا۔
اختیار ولی نے قیمتوں میں حالیہ اضافے اور پاکستان میں امن و امان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ قیمتوں میں اضافہ سابقہ حکومت کی میراث ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2016 میں جب آخری بار مسلم لیگ ن کی حکومت تھی تو ہم نے آئی ایم ایف کو اپنی آخری قسط ادا کی تھی اور اسے الوداع کہہ دیا تھا جب کہ آئی ایم ایف نے ایک اور قرض کی پیشکش کی تھی لیکن ہم نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ ہمیں کسی قسم کے قرض کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم پہلے ہی کھڑے ہو چکے ہیں اور بغیر کسی مدد کے زندہ رہ سکتے ہیں۔
ولی نے کہا کہ جب پاکستان میں 2018 میں انتخابات ہوئے، جسے سیاہ تاریخ کہا جا سکتا ہے، جس میں جنرل فیض قسم کے لوگ دھاندلی اور انتظامات کر رہے تھے اور عمران خان کے لیے ایک پلے لیڈ تیار کیا جا رہا تھا، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے تعاون سے پاکستان کی عدلیہ کی راہداریوں اور اس کے نتیجے میں ملک میں نام نہاد تبدلی لائی گئی۔ یہ عمران ہی تھا جو حکومت سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف کے پاس گیا تھا، اس وقت پاکستان 27 ہزار ارب روپے کا مقروض تھا اور اب جب اس نے حکومت چھوڑی تو پاکستان تقریباً 53 ہزار ارب روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ لہٰذا اگر ہم نے اتنا قرض لیا ہے تو یقینی طور پر قیمتوں میں اضافہ ایک حتمی نتیجہ ہو گا، جس کا ہمیں ابھی سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
پارٹی کے صوبائی سربراہ سے جب اس نازک معاشی دور میں پاکستان کا ہاتھ تھامنے کے لیے سامنے آنے والے پہلے سپورٹرملک کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے چین جیسے ملک کا بے حد شکریہ ادا کیا اور چین کو پاکستان کا حقیقی دوست قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ چین کے ساتھ دوستی کا رشتہ سمندر سے زیادہ گہرا اور پہاڑوں سے زیادہ بلند اور شہد سے میٹھا ہے کیونکہ چین نے ہمیشہ ضرورت کے وقت اپنی دوستی کا ثبوت دیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے گزشتہ دورہ قطر کے دورے پر شیخ تمیم سے ملاقات کی جنہوں نے پاکستان کو امداد کی فراہم کا یقین دلایا، اسی طرح سعودی عرب نے بھی طرح طرح کے امدادی منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔
خاص طور پر خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی لہر کے بارے میں بات کرتے ہوئے، جب ان سے مقامی اور پاکستانی معیشت پر طالبان کے مسلسل حملوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے اقدامات کے بارے میں پوچھا گیا، تو اختیار ولی نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمیں تبدیلی قسم کی حکومت کا سامنا کرنا پڑا، جس نے پاکستان میں اور خاص طور پر اس صوبے میں مسلسل 10 سال حکومت کی۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں فوجی آپریشنز جیسے ضرب عضب، ردالفساد، اور فوج کے دوسرے آپریشنز ہمیشہ کامیاب رہے جس کی وجہ سے اس صوبے اور پورے پاکستان میں امن قائم ہوا۔
جب طالبان کے مستقبل کے اقدامات کی پیشین گوئی کے حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا اس سے پاکستانی شہریوں کے تحفظ کو مزید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ پاکستان آرمی، نیوی اور ایئرفورس کے علاوہ دیگر سیکیورٹی ادارے اپنا کام بخوبی انجام دے رہے ہیں، اور اپنے لوگوں کی حفاظت کر رہے ہیں۔
ہماری پولیس فورس مختلف شہروں میں عوام کی حفاظت کے لیے سرگرم عمل ہے، اگرچہ وہ زیادہ تر دہشت گردوں کے نشانے پر ہوتی ہے لیکن ان کے حوصلے ہمیشہ بلند رہتے ہیں لیکن وہ پھر بھی ہمارے لوگوں کے تحفظ کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے، لیکن بدقسمتی سے محمود خان جیسے لوگ جو کہ سابق وزیراعلی تھے، تو صوبے کے وزیراعلیٰ اور کچھ دوسرے لوگوں نے چترال، سوات اور وزیرستان کے اضلاع سے راستہ دے کر طالبان کو یہاں واپس لائے اور امن کو ایک بار پھر داؤ پر لگا دیا تاہم، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اور بھی بہت سے آپریشنز ہیں جو ابھی جاری ہیں اور ہماری فوج اپنا کام بخوبی انجام دے رہی ہے اور انشاء اللہ ہم ملک میں امن لانے کا مقصد حاصل کریں گے، اور ہم ایک انتہائی پرامن خیبر پختونخواہ کو واپس اسکے عوام کو لوٹائیں گے۔
پاکستان کی مستقبل کی سیاسی صورتحال اور موجودہ حکومت کے بارے میں مسلم لیگ پارٹی کے خیالات کے بارے میں سوال کے جواب میں اختیار ولی نے کہا کہ ہم نے یہ حکومت صرف اپنے ملک کو بچانے کے لیے لی، اگر ہم اس حکومت میں شامل نہ ہوتے اور خان صاحب کو ایک آئینی ایکٹ جیسے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے پارلیمنٹ سے باہر نہیں نکالا جاتا تو پورا ملک، تمام صوبے، آپ کے تمام ایئرپورٹ، آپ کی گوادر پورٹ، بندرگاہ، اور آپ کا ریلوے سسٹم اور موٹرویز، وہ سب ختم ہو چکے ہوتے اور یہ کہ اب آپ ان سب کے مالک نہیں ہوتے، کیونکہ اسکو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھا جا چکا ہوتا اور آپ کا سارا ملک فروخت ہو چکا ہوتا لہٰذا اب اگر ہم آئے تو ہم نے اپنے تمام سیاسی مفادات داؤ پر لگا دیے اور ہم اس حکومت کی قیمت ادا کر رہے ہیں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہم ہی وہ لوگ ہیں جو ملک کو بچا سکتے ہیں اور عوام کو بچا سکتے ہیں، معیشت اور ہر اثاثہ کو بچا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم مثبت طریقے سے تمام اہداف حاصل کرنے کے لیے بہت پر امید ہیں، میں خیبرپختونخوا کے تمام لوگوں اور یہاں تک کہ پاکستان کے عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ ملک اور اس کے اثاثے اب محفوظ ہاتھوں میں ہیں اور انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب ہم اپنے ملک پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنا دیں گے اور ہم اپنی تمام تر کامیابیاں حاصل کریں گے، ملکی اہداف کو آپ مستقبل میں ملکی معیشت کی بہتری کی صورت میں بہت تیزی سے حاصل ہوتا دیکھیں گے۔
اختیار ولی نے کہا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اورمسلم لیگ ن پاکستان کی سب سے بڑی حکمران جماعت ہے، یہ ہماری تاریخ ہے کہ ہم جب بھی اقتدار میں آئے ہم نے اپنے تمام ہمسایوں بشمول ایران، افغانستان، بھارت، چین سمیت تمام ہمسایوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ تمام ہمسایوں سے بہت اچھے تعلقات بنانے کی پوری کوشش کی۔
اس سے قبل بھی وزیر اعظم محمد نواز شریف نے روس کے ساتھ بہت اچھے تعلقات بنائے اور یہ ہماری خاصیت ہے کہ ہم ہر ایک کے ساتھ بہت بہتر اور بہت خوبصورت، بہت دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں بشرطیکہ اگر وہ بھی پاکستان کے ساتھ پرامن ہیں تو ہمیں بھی ان کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے.
پاکستان میں عام انتخابات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت، قومی اسمبلی، پنجاب، کے پی کے، سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی مدت اکتوبر کے مہینے میں ختم ہو جائے گی چونکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا جیسی دو اسمبلیاں عمران خان کی شیطانی منصوبہ بندی سے تحلیل ہو چکی ہیں۔
اس لیے اگر وہ اس قسم کے حالات میں دوبارہ الیکشن چاہتے ہیں تو ایسی صورت میں کہ جب ہمیں اپنی معیشت میں ڈالنے اور غریب عوام کو ریلیف دینے کے لیے پاس کچھ بھی نہیں تو اس صورت حال میں الیکشن کی بات کیسے کی جا سکتی ہے، جب کہ مختلف علاقوں میں فوجی آپریشن بھی ہو رہا ہے اور امن و امان کی صورتحال بھی اتنی خراب ہے،تو ہم صرف دو اسمبلیوں کے وقت سے پہلے یا ضمنی انتخابات کے کیسے محتمل ہو سکتے ہیں؟
لہذا، میں سمجھتا ہوں کہ اسکے لئے ایک انتظام اور ایک مختص وقت موجود ہے، یعنی کہ اس الیکشن کو منعقد کیا جائے گا اور اسے اکتوبر/نومبر میں ہونے والے اگلے عام انتخابات تک ملتوی کر دیا جائے گا، جس میں ملک کی بہتری ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا بنیادی مقصد ہماری معیشت کو بحال کرنا اور مضبوط کرنا ہے، یہ ہمارا بنیادی ہدف ہے نہ کہ الیکشن۔ جبکہ الیکشنز ہماری ثانوی ترجیحات میں شامل ہے۔