کویت اردو نیوز، 26 مئی: حکومت برطانیہ نے نئی ویزہ پالیسی کا اعلان کرکے برطانیہ میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبہ کو متاثر کیا ہے۔
نئے اقدامات کے تحت صرف 2 سال سے زائد عرصے تک چلنے والے ریسرچ پروگرام سے منسلک پوسٹ گریجویٹ کورسز کے طلبہ ہی دوران تعلیم اپنے زیر کفالت افراد کو برطانیہ لانے کے اہل ہوں گے۔
برطانیہ نے یورپی یونین سے لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت ختم کر دی ہے کیونکہ رواں سال مہاجرین کی تعداد ریکارڈ بلندیوں تک پہنچنے والی ہے۔
اس کی وجہ زیادہ تر یوکرین، ہانگ کانگ اور افغانستان سے فرار ہونے والے لوگوں کے لیے مخصوص ویزہ اسکیمز ہیں، پھر بھارت اور نائیجیریا سے آنے والے طلبہ کی تعداد میں بھی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
دائیں بازو کی وزیر داخلہ سویلا بریورمین نے اپنی ہی حکومت کو مزید سخت ہونے کی درخواست کی۔
تاہم، مالیات اور تعلیم کے وزرا وزیر داخلہ کی مخالفت کرتے ہیں اور غیر ملکی کارکنوں کی جانب سے لائی جانے والی سکلز اور برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں طلبہ کی جانب سے ادا کی جانے والی اعلی فیسوں کی قدر کرتے ہیں۔
سویلا بریورمین نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ گزشتہ سال بین الاقوامی طلبہ کے زیر کفالت افراد کو تقریباً ایک لاکھ 36 ہزار ویزے جاری کیے گئے جو کہ 2019 میں جاری کردہ 16 ہزار سے 8 گنا زیادہ ہیں، مستقبل میں غیر ملکی طلبہ کو اپنے کورسز مکمل کرنے سے پہلے طلبہ کے راستے کو کام کے راستے میں بدلنے سے روکا جائے گا۔
برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ وہ غیر ملکی طالب علموں کو اپنے کورس کے بعد اسی ویزہ پر دو سال تک برطانیہ میں رہنے کا اہل ہونے کرنے والے ویزا پلان میں کسی تبدیلی کا منصوبہ نہیں بنا رہی ہے بشرطیکہ اگر انہیں ملازمت مل گئی ہو۔
برطانوی وزیر داخلہ کے بیان کے مطابق اس اقدام سے تعلیم کو امیگریشن کے طور پر استعمال کرنے والے بے ایمان ایجنٹوں کا راستہ بند ہو جائیگا۔
یونیورسٹیز یو کے انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر جیمی اروسمتھ، نے اس بات پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے اقدامات سے امیگریٹنس کی تعداد میں کمی آئے گی۔
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر بین الاقوامی طلبہ زیر کفالت افراد کے ساتھ نہیں آتے اس لیے طلبہ کی اکثریت اس تبدیلی سے متاثر نہیں ہوگی تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ یقیناً!کچھ اثر پڑے گا ورنہ حکومت تبدیلی متعارف نہیں کرائے گی۔