کویت اردو نیوز : آج اگر آپ کسی دوسرے ملک جانا چاہتے ہیں تو آپ پہلے پاسپورٹ بنوائیں گے اور پھر اس ملک کا ویزا حاصل کریں گے، اس کے بعد ہی آپ وہاں کا سفر کریں گے، لیکن 19ویں صدی کے آغاز تک، یعنی تقریباً سو سال۔ پہلے بہت سے لوگ پاسپورٹ اور ویزا کے بغیر ملکوں میں آ جا سکتے تھے ۔
دنیا کا پہلا پاسپورٹ 1914 میں جاری کیا گیا اور ویزا اپنی موجودہ شکل میں دوسری جنگ عظیم کے بعد نافذ ہوا۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ویزا کا ذکر قدیم تاریخ میں بھی ملتا ہے۔
اگرچہ ویزا فری نقل و حرکت بعید از قیاس نہیں ہے۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ کسی بھی ملک میں داخل ہوتے تھے خواہ وہ دشمن ملک ہی کیوں نہ ہو۔
پاسپورٹ اور ویزوں سے پہلے دنیا کیسی تھی اس کا تصور کرنا مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔
گاڑیاں عام ہونے سے پہلے سفر کرنا مشکل تھا، اس لیے یا تو وسائل رکھنے والے دوسرے ممالک کا رخ کرتے تھے یا زیادہ ہمت والے لوگ۔
سو سال پہلے قومی ریاستیں بہت کم تھیں۔ مثال کے طور پر مشرق وسطیٰ کا زیادہ تر حصہ ایک ہی سلطنت عثمانیہ کے زیر کنٹرول آیا۔
تاکہ لوگ آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا سکیں۔ لیکن کسی بھی شخص کے لیے کسی دوسرے ملک کے بادشاہ کی مرضی کے خلاف وہاں رہنا ممکن نہیں تھا۔
اس لیے جہاں عام لوگوں کو نقل و حرکت کی آزادی تھی، وہیں اہم سیاسی شخصیات کو کسی ملک سے گزرنے سے پہلے اجازت لینی پڑتی تھی۔ یہ ویزا کی ابتدائی شکل تھی۔
بائبل میں فارس کے بادشاہ اردشیروال کا ذکر ملتا ہے جس نے یہاں 450 قبل مسیح میں حکومت کی۔ اہم سیاسی شخصیات کو ان کی سلطنت سے گزرنے کے اجازت نامے ملتے تھے۔
لفظ ویزا دراصل لاطینی لفظ ‘چارٹا ویزا’ سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے، ایک کاغذ جو دیکھا گیا ہو۔
پچھلی صدی کے اوائل میں پاسپورٹ اور ویزا دو الگ الگ دستاویزات نہیں تھے۔ بادشاہ کی طرف سے جاری کردہ کاغذ ہی کافی سمجھا جاتا۔
برطانوی تاریخ میں اس طرح کی دستاویز کا سب سے قدیم ذکر کنگ ہنری دوم کے دور میں 1414 کا ہے۔
16ویں صدی میں، برطانیہ میں سفری دستاویزات کا اجراء کنگس پریوی کونسل کو سونپا گیا۔ اسی دور میں لفظ ‘پاسپورٹ’ استعمال ہونے لگا۔ پاس کا مطلب ہے گزرنا جبکہ پورٹ کو دو معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بندرگاہوں کو انگریزی میں پورٹ کہتے ہیں،فرانسیسی میں شہر کی دیواروں کو پورٹ کہتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پورٹ ان دونوں الفاظ میں سے کسی ایک سے ماخوذ ہے۔
برطانوی بادشاہ چارلس اول کی طرف سے 18 جون 1641 کو جاری کردہ ‘پاسپورٹ’ اس عرصے کے دوران بھی موجود ہے۔
جدید پاسپورٹ 1914 میں اس وقت وجود میں آیا جب برطانیہ نے ایک نئے قانون کے تحت پاسپورٹ جاری کرنا شروع کیا۔ یہ پاسپورٹ ایک صفحے پر مشتمل تھا جسے 8 بار فولڈ کیا گیا تھا۔ کاغذ گتے کے ساتھ بیک کیا گیا تھا تاکہ یہ پھٹا نہ جائے۔
یہ پاسپورٹ دو سال کے لیے کارآمد تھا، اس میں نہ صرف مذکورہ شخص کی تصویر تھی بلکہ اس کا حلیہ بھی درج ہوتا تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر پاسپورٹ ہر ایک کے لیے لازمی قرار دیا گیا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ لیگ آف نیشنز نامی تنظیم تھی جسے اقوام متحدہ کا پیشرو کہا جاتا ہے۔
لیگ آف نیشنز کے تحت ممالک نے ایک دوسرے کے پاسپورٹ کو تسلیم کیا اور یہ شرط رکھی کہ پاسپورٹ کے بغیر کوئی بھی سرحد پار نہیں کر سکتا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک نے لیگ آف نیشنز کے ذریعے پاسپورٹ نافذ کرکے اپنا کنٹرول مضبوط کیا، ورنہ اس کی قطعاً ضرورت ہی نہیں تھی۔
بحر اوقیانوس کے دوسری طرف، امریکہ میں اعلانِ آزادی سے پہلے ہی پاسپورٹ نما پرمٹ استعمال میں تھے، لیکن معیاری پاسپورٹ 19ویں صدی کے آخر میں جاری کیے جانے لگے۔
اس وقت امریکہ میں غیر شادی شدہ خواتین کو اپنا پاسپورٹ جاری کیا جاتا تھا لیکن شادی شدہ خواتین کو الگ پاسپورٹ نہیں دیا جاتا تھا۔ شوہر کے پاسپورٹ پر اس کا ذکر تھا اور اس کا نام بھی نہیں تھا۔ کیپشن میں لکھا تھا، "مسٹر جان ڈاؤ اور بیوی۔”
خواتین کو تنہا بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ شادی شدہ خواتین صرف اپنے شوہروں کے ساتھ ملک سے باہر جا سکتی ہیں۔
پچھلی صدی کے پہلے نصف میں ہندوستان برطانوی راج کے تحت تھا لیکن وہاں کے باشندوں کو برطانوی پاسپورٹ جاری نہیں کیے جاتے تھے لیکن برطانوی حکومت نے ’’برٹش انڈین پاسپورٹ‘‘ جاری کیے تھے۔
قائد اعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی سمیت سیاسی رہنماؤں کو بھی یہی پاسپورٹ جاری کیے گئے تھے۔
برطانوی ہندوستانی پاسپورٹ بھی عام شہریوں کو جاری کیے گئے۔ میسور کے ایک استاد دیو پرکاش کو 1931 میں ایسا پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا۔
میسور کے رہنے والے دیو پرکاش کو 1931 میں برطانوی ہندوستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا تھا۔
ہندوستان میں اس پاسپورٹ کے اجرا کی وجہ لیگ آف نیشنز کا فیصلہ بھی تھا جس کے بعد انڈین پاسپورٹ ایکٹ 1920 لایا گیا۔
جب پاکستان اور بھارت بنا تو برطانوی ہندوستانی پاسپورٹ رکھنے والوں کو پاکستان، ہندوستان یا برطانیہ کی شہریت لینے کی آزادی دی گئی۔