کویت اردو نیوز 30 مارچ: عید کے بعد آؤ” یہ ایک ایسا جملہ ہے جو آج کل عام ہو چکا ہے اور ہر اس شخص کو چونکا دیتا ہے جو عید کا داشہ سلوانے کے لئے درزیوں کے پاس جاتا ہے اور ہر کوئی پوچھتا ہے کہ "درزی کیوں نہیں ہیں؟”
طویل انتظار کے رجحان کے پھیلنے کے بعد داشہ سینے والے درزیوں کا بازار بہت سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جبکہ درزیوں سے تاریخیں عید الفطر کے بعد کی مل رہی ہیں حالانکہ ابھی رمضان کا مہینہ بھی شروع نہیں ہوا ہے! روزنامہ الرای نے کویت کی قدیم مارکیٹ سوق مبارکیہ میں سلائی کی دکانوں کا دورہ کیا اور داشہ سلوانے کے لئے اتنے دن انتظار کرنے کی وجوہات کی چھان بین کی جس کی تفصیلات درزی کی دکانوں کے مالکان نے بیان کیں۔ دکان کے ایک مالک نے کہا کہ "ملک میں تجارتی سرگرمیوں میں معمول کی زندگی کی واپسی پر ماہ رمضان، عید الفطر اور موسم گرما کی آمد کی وجہ سے
دش داشہ سلوانے کا سلسلہ جاری تھا”۔ موسم گرما ایک ایسا موسم ہے جس میں کویتی داشوں کی مانگ میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے لیکن مناسب تربیت یافتہ کارکنوں کی کمی کی وجہ سے دکاندار یہ مانگ پوری کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان میں سے سیکڑوں تربیت یافتہ کارکنوں نے 60 سال یا اس سے زیادہ عمر ہونے کی وجہ سے کویت چھوڑ دیا ہے اس کے علاوہ
سینکڑوں کارکن سفری طریقہ کار میں نرمی ہونے کی وجہ سے سافر جا چکے ہیں، انہوں نے کورونا کے دوران ملازمت سے سفر نہیں کیا تھا کیونکہ ان میں سے کچھ نے 3 سال سے زائد عرصے سے اپنے اہل خانہ کو نہیں دیکھا تھا جس کی وجہ سے مارکیٹ میں درزیوں کی شدید کمی ہے۔ ” درزی احمد قدیر نے کہا کہ وہ اپنے صارفین کی درخواستوں کو مسترد کرنے پر شرمندہ ہیں کیونکہ وہ انہیں دو ماہ تک مکمل نہیں کر سکتے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ "میرے پاس 5 درزی کام کرتے تھے اور گاہکوں کی درخواستیں وصول کرنے کے لیے صورتحال کافی تھی جیسا کہ گاہک کے لیے دش داشہ سلائی کرنے کی آخری تاریخ ایک ہفتے سے زیادہ نہیں ہوتی لیکن اب صورتحال مختلف ہے چونکہ دکان میں صرف دو درزی ہیں میں کس طرح گاہکوں کی درخواستیں وصول کروں کیونکہ میرے پاس اب اتنے درزی نہیں ہیں”
ایک اور درزی قدیر نے نشاندہی کی کہ "بہت سے درزیوں نے کورونا سے پہلے سفر کیا اور ان کے اقامے ملک سے باہر رہتے ہوئے ختم ہو گئے اور اب درزیوں و سلائی میں مہارت رکھنے والی کچھ قومیتوں کے اور تجربہ رکھنے والے افراد کے لیے ورک پرمٹ جاری نہیں کیے جا رہے ہیں” انہوں نے دوبارہ کام کی نقل و حرکت کی واپسی کے لیے اجازت نامے دینے کا مطالبہ کیا۔
درزی نیاز احمد نے کہا کہ "میں ایک دن میں 20 داشے سلائی کرتا ہوں، میں تمام درخواستیں پوری نہیں کر سکتا اور میرے پاس صرف ایک لفظ ہے عید کے بعد آنا”۔ چنانچہ یہ نوٹ کیا گیا کہ "60 سالہ افراد کا فیصلہ، سافر جانے والے درزی، کورونا کے دوران بیرون ملک اقامہ کی میعاد ختم ہونا اور کچھ قومیت کے ورک پرمٹ بند کرنا ان سب نے کویت میں درزیوں کا بحران پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور نہ صرف درزیوں کے لیے بلکہ صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچانے اور ملک میں معمول کی زندگی کی واپسی کے ساتھ تمام پیشہ ور کارکنوں کے لیے اجازت نامے کے دروازے کھولنا ضروری ہے۔