جب محمد حنیف نے سنا کہ قطر افغان شہریوں کے لیے ملازمتوں کے دروازے کھول رہا ہے تو وہ بھی ہزاروں دیگر افراد کی طرح فوراً اپنا نام درج کرانے پہنچ گئے تاکہ اس گیس سے مالا مال ملک میں روزگار کا موقع حاصل کر سکیں۔ افغانستان اس وقت شدید بیروزگاری کا شکار ہے، اور ایسے میں قطر کی جانب سے یہ موقع ایک امید کی کرن ثابت ہوا ہے۔
طالبان حکومت نے رواں ماہ خلیجی ملک قطر کے ساتھ ایک معاہدے کا اعلان کیا ہے جس کے تحت 3,100 افغان ورکرز کو قطر میں ملازمت دی جائے گی۔ منگل کے روز ملک بھر کے مختلف مراکز پر ان ملازمتوں کے لیے درخواستوں کا آغاز ہو چکا ہے۔
ایک دن میں 8,500 سے زائد درخواستیں، 15,000 سے زیادہ کی توقع
بدھ تک کابل اور اس کے آس پاس کے صوبوں سے 8,500 سے زیادہ افراد نے اپنا اندراج کروایا، جبکہ وزارت محنت کے ترجمان سمیع اللہ ابراہیمی کے مطابق ملک بھر سے 15,500 سے زائد افراد کی رجسٹریشن کی توقع کی جا رہی ہے۔
طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ملازمتیں ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری اور غربت سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ افغانستان کی آبادی تقریباً 4 کروڑ 80 لاکھ ہے، اور اقوام متحدہ کے مطابق ملک اس وقت دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا سامنا کر رہا ہے۔
محمد حنیف، جو مغربی صوبہ بادغیس سے ہرات پہنچے تھے، کہتے ہیں:
"ہمارے ملک میں بہت زیادہ مسائل ہیں، زیادہ تر لوگ غربت میں زندگی گزار رہے ہیں اور معمولی نوعیت کی مزدوری کرتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا:
"مجھے گاڑیوں کی مرمت اور کھانا پکانے کا تجربہ ہے، میرے پاس اس کے سرٹیفکیٹ بھی ہیں۔”
انہوں نے قطر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغان باشندوں کو ملازمتیں دے رہا ہے۔
مقابلہ سخت، لیکن اُمید باقی ہے
یہ ملازمتیں حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ ملک بھر میں مراکز پر ہزاروں افراد اس اُمید میں جمع ہو رہے ہیں کہ ان کے پاسپورٹ، شناختی کارڈ اور پیشہ ورانہ سرٹیفکیٹس ان کی قسمت بدل دیں گے۔ یہ ملازمتیں مختلف شعبوں میں دی جا رہی ہیں، جیسے بس ڈرائیور، کلینر، باورچی، مکینک اور الیکٹریشن۔
صرف جنوبی قندھار میں ایک ہزار سے زائد افراد نے درخواستیں دی ہیں، جہاں صرف 375 آسامیاں مختص کی گئی ہیں۔ ہرات میں بدھ کے روز 2,000 سے زائد افراد قطاروں میں کھڑے دکھائی دیے تاکہ چند سو ملازمتوں کے لیے اپنی قسمت آزمائیں۔
تہران کے بجائے اب دوحہ
قطر وہ ملک ہے جہاں طالبان نے امریکی افواج کے خلاف دو دہائیوں پر مشتمل جنگ کے دوران اپنا دفتر کھولا تھا۔ اب بھی قطر چند ممالک میں شامل ہے جن کے طالبان حکومت کے ساتھ مضبوط سفارتی تعلقات قائم ہیں، خاص طور پر 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد۔
اب تک صرف روس نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔ افغان وزیر محنت عبد المنان عمری کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، ترکی اور روس کے ساتھ بھی ایسے ہی معاہدوں پر بات چیت جاری ہے۔
افغان حکومت کے نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور عبدالغنی برادر نے کہا ہے کہ یہ اقدامات "ملک کی اقتصادی حالت پر مثبت اثر ڈالیں گے اور بیروزگاری کم کرنے میں مدد دیں گے۔”
افلاس میں ڈوبا افغانستان، نوجوان سب سے زیادہ متاثر
ورلڈ بینک کے مطابق افغانستان کی تقریباً نصف آبادی غربت کا شکار ہے، اور ملک میں بیروزگاری کی شرح 13 فیصد سے زائد ہے۔ 15 سے 29 سال کے نوجوانوں میں تقریباً ایک چوتھائی بے روزگار ہیں۔ جو لوگ کام کر بھی رہے ہیں، وہ کم تنخواہوں پر اپنے بڑے خاندانوں کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔
روزگار کے مواقع نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ملک میں دہائیوں سے جاری جنگ، تباہ شدہ انفراسٹرکچر، قحط سالی اور حالیہ مہینوں میں ایران و پاکستان سے افغانوں کی جبری واپسی ہے۔ روزگار فراہم کرنے والی کمپنیوں کی ایک تنظیم کے سربراہ نوراللہ فدوی نے بتایا کہ بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے، زرعی شعبہ خشک سالی سے متاثر ہے، اور لاکھوں افراد ہمسایہ ممالک سے نکالے جا چکے ہیں۔
دو ملین سے زائد افغان ایران اور پاکستان سے واپس آئے
اس سال تقریباً 20 لاکھ افغان شہری اپنے وطن واپس آئے ہیں، جنہیں ایران اور پاکستان سے نکالا گیا یا جبراً ملک بدر کیا گیا۔
ہرات میں ہوٹل کی نوکری کے لیے رجسٹریشن کرانے والے 39 سالہ نور محمد نے کہا:
"ہم قطر کے شکر گزار ہیں اور دیگر عرب ممالک سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ افغان شہریوں کو روزگار فراہم کریں، کیونکہ ایران اور پاکستان میں حالات بہت خراب ہیں۔”
رہائش اور کام کی شرائط پر ابھی وضاحت باقی
طالبان حکام نے ابھی تک واضح نہیں کیا کہ قطر میں افغان ملازمین کو کہاں رہائش دی جائے گی اور ان کے کام کے حالات کیا ہوں گے۔ تاہم، انہوں نے ان کے حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی ضرور کرائی ہے۔
قطر، جہاں تقریباً 90 فیصد آبادی غیر ملکیوں پر مشتمل ہے، کو ماضی میں مہاجر مزدوروں کے ساتھ ناروا سلوک کے الزامات کا سامنا رہا ہے، خاص طور پر 2022 کے فیفا ورلڈ کپ کی تعمیراتی سرگرمیوں کے دوران۔
قطر میں مزدوروں کے لیے اہم اصلاحات
ان الزامات کے بعد قطر نے کئی اہم اصلاحات نافذ کیں۔ "کفیل نظام” کو ختم کیا گیا، جس کے تحت مالکان کو یہ اختیار حاصل ہوتا تھا کہ وہ مزدوروں کو نوکری چھوڑنے یا ملک سے نکلنے کی اجازت دیں یا نہ دیں۔
قطر نے ایسے مالکان کے خلاف سخت کارروائی بھی شروع کی ہے جو مزدوروں کے حقوق پامال کرتے ہیں۔ مزدوروں کی سلامتی کے لیے نئے قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔
افغانستان میں مواقع نہ ہونے کی وجہ سے قطر کا انتخاب
37 سالہ محمد قاسم کا کہنا تھا:
"اگر مجھے افغانستان میں کوئی کام مل جائے تو میں قطر نہیں جاؤں گا۔”
انہوں نے چار سال قبل تعلیم کے شعبے میں یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کی، لیکن تب سے بیروزگار ہیں۔
انہوں نے قندھار میں صفائی کے ایک عہدے کے لیے درخواست دی ہے اور کہا:
"میں نے بہت کوشش کی لیکن یہاں کچھ بھی نہیں، کم از کم قطر میں کچھ کما تو سکوں گا۔”


















