صیہونی ریاست نے منگل کے روز اپنے دیرینہ دشمن حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بناتے ہوئے قطر میں فضائی حملہ کیا۔ یہ حملہ اس وسیع فوجی کارروائی کا حصہ ہے جو مشرقِ وسطیٰ کے مختلف ممالک میں جاری ہے، اور اب خلیجی عرب ملک قطر تک پہنچ چکی ہے، جہاں حماس کا طویل عرصے سے سیاسی دفتر موجود ہے۔
قطر، جو امریکہ کا ایک اہم سکیورٹی پارٹنر ہے اور جہاں مشرقِ وسطیٰ کا سب سے بڑا امریکی فوجی اڈہ العدید ایئر بیس قائم ہے، جنگ بندی کی کوششوں میں مصر کے ساتھ ثالثی کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ یہ جنگ غزہ میں تقریباً دو سال سے جاری ہے اور اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں
قطر کا ردِعمل
قطر نے منگل کے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے “بزدلانہ کارروائی” اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ قطر کی وزارتِ داخلہ کے مطابق اس حملے میں اس کے داخلی سلامتی کے ایک اہلکار کی شہادت ہوئی۔ ابتدائی معلومات کے مطابق کارپورل بدر سعد محمد الحمیدی الدوسری شہید ہوئے جبکہ دیگر اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ یہ حملہ صیہونی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی "شِن بیٹ” نے مشترکہ طور پر کیا۔
حماس کا موقف
حماس نے تصدیق کی کہ اس حملے میں اس کے پانچ اراکین جاں بحق ہوئے ہیں جن میں غزہ کے جلاوطن رہنما خلیل الحیہ کا بیٹا بھی شامل ہے۔ تاہم حماس کا کہنا ہے کہ صیہونی ریاست اپنے اصل مقصد میں ناکام رہی کیونکہ وہ دراصل حماس کی جنگ بندی مذاکراتی ٹیم کو ختم کرنا چاہتی تھی۔ حماس کے سیاسی دفتر کے رکن سہیل الہندی نے الجزیرہ کو بتایا کہ تنظیم کی اعلیٰ قیادت اس حملے میں محفوظ رہی
کویت کی حمایت
کویت کے امیر شیخ مشعل الاحمد الجابر الصباح نے قطر پر ہونے والے اس حملے کی سخت مذمت کی اور قطر کی قیادت، حکومت اور عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیا۔ انہوں نے قطری امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور کہا کہ کویت قطر کے ساتھ کھڑا ہے اور اپنی تمام تر وسائل سے مدد کے لیے تیار ہے۔ کویت نے اس حملے کو خطے کے امن و استحکام کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے فوری اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
امریکہ کو اطلاع
واشنگٹن سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صیہونی ریاست نے امریکہ کو اس حملے کی پیشگی اطلاع دی تھی۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو مئی میں قطر کا دورہ کر چکے ہیں، نے اس حملے کو “بدقسمتی” قرار دیا۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق ٹرمپ نے اپنے قریبی مشیر کو ہدایت دی تھی کہ وہ قطر کو اس ممکنہ حملے سے آگاہ کرے۔
ٹرمپ نے بعد ازاں صیہونی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو اور امیر قطر دونوں سے بات کی اور یقین دہانی کرائی کہ آئندہ قطر کی سرزمین پر ایسا واقعہ نہیں ہوگا۔ ٹرمپ نے کہا کہ اگرچہ حماس کا خاتمہ ایک “قابلِ تعریف مقصد” ہے لیکن قطر پر حملہ کسی بھی طور امریکہ یا صیہونی ریاست کے مقاصد کو آگے نہیں بڑھاتا۔
عالمی ردِعمل
اس حملے پر دنیا بھر سے شدید ردِعمل سامنے آیا۔
-
امارات نے اسے “کھلی اور بزدلانہ جارحیت” قرار دیا۔
-
سعودی عرب نے کہا کہ یہ قطر کی خودمختاری پر ایک “ظالمانہ حملہ” ہے۔
-
مصر نے خبردار کیا کہ یہ ایک خطرناک نظیر قائم کر رہا ہے۔
-
پوپ لیو نے غیر معمولی سخت ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ “صورتحال نہایت سنگین ہے۔”
-
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی مذمت کی اور کہا کہ قطر جنگ بندی کے لیے اہم کردار ادا کر رہا تھا۔
ادھر نیتن یاہو نے اپنی تقریر میں کہا کہ “دہشت گرد قیادت کے لیے اب کوئی محفوظ جگہ باقی نہیں۔” اس بیان کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمت ایک ڈالر فی بیرل سے زیادہ بڑھ گئی۔
جنگ بندی پر اثرات
ماہرین کے مطابق قطر پر یہ حملہ جنگ بندی کی کوششوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے کیونکہ مذاکرات زیادہ تر قطر ہی میں ہوتے رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے کہا کہ اس کارروائی نے یرغمالیوں کی رہائی کے امکانات بھی ختم کر دیے ہیں۔ “یہ حملہ بنیادی طور پر دہائیوں کی سفارتی کوششوں کو برباد کرنے کے مترادف ہے،” یورپی کونسل فار فارن ریلیشنز کے تجزیہ کار محمد شہادہ نے کہا۔
غزہ میں خوف و ہراس
دوسری جانب صیہونی فوج نے غزہ شہر کے رہائشیوں کو انخلا کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ یہ شہر جنگ سے پہلے ایک ملین فلسطینیوں کا مسکن تھا۔ بے گھر مریض اور عام لوگ سخت خوف میں ہیں۔ ایک کینسر کے مریض بجیس الخالدی نے کہا:
“اب کہیں بھی محفوظ جگہ باقی نہیں بچی، نہ جنوب میں، نہ شمال میں۔ ہم مکمل طور پر پھنس گئے ہیں۔”
بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے کہ غزہ پر صیہونی منصوبہ، جس کے تحت پورے علاقے کو عسکری طور پر غیر فعال کر کے صیہونی ریاست اپنی سکیورٹی کا کنٹرول سنبھالنا چاہتی ہے، دو اعشاریہ دو ملین فلسطینیوں کی انسانی مشکلات کو مزید بڑھا سکتا ہے۔


















