کٹھمنڈو: نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف نوجوانوں کے شدید احتجاج نے بالآخر ملک کی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جس کے نتیجے میں وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے استعفیٰ دے دیا۔
نیپال میں گزشتہ روز سے شروع ہونے والے ان مظاہروں نے دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد رخ اختیار کر لیا۔ اطلاعات کے مطابق کم از کم 19 افراد ہلاک جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے۔ بڑے شہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں جاری رہیں، جس کے باعث حالات قابو سے باہر ہوتے دکھائی دیے۔ اسپتالوں میں زخمیوں کی بڑی تعداد پہنچائی گئی، جبکہ ایمرجنسی نافذ کرکے پولیس اور فوج کو تعینات کر دیا گیا۔
وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کے بعد اگرچہ نیپال کی سیاسی قیادت نے حالات کو معمول پر لانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں، لیکن مظاہرین اب بھی سڑکوں پر موجود ہیں۔ کئی مقامات پر سرکاری دفاتر، سرکاری عمارتوں اور سیاستدانوں کے گھروں پر حملوں اور توڑ پھوڑ کی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ جلاؤ گھیراؤ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہیں، جس سے عوامی غصہ اور بے چینی مزید بڑھ گئی ہے۔
اب سب کی نظریں اس بات پر ہیں کہ نیپال کا نیا وزیر اعظم کون ہوگا۔ اس وقت سب سے زیادہ جس شخصیت کا نام سامنے آ رہا ہے وہ ہیں بالیندرا شاہ، جنہیں عام طور پر "بالن شاہ” کہا جاتا ہے۔ انہیں خاص طور پر نوجوان نسل، یعنی "جنریشن زیڈ” کی نمائندگی کرنے والی شخصیت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
بالیندرا شاہ کون ہیں؟
بالیندرا شاہ کٹھمنڈو کے 15ویں میئر ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وہ ایک سول انجینئر ہیں اور ساتھ ہی موسیقی سے بھی شغف رکھتے ہیں۔ نوجوانوں میں ان کی شناخت صرف ایک سیاستدان کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسے فنکار اور عوامی رہنما کے طور پر بھی ہے جو سادہ طرزِ زندگی اور ایمانداری کے لیے مشہور ہیں۔
انہوں نے 2022 کے بلدیاتی انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا اور حیران کن طور پر بڑی سیاسی جماعتوں کو شکست دے کر میئر منتخب ہوئے۔ یہ کامیابی نیپالی سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے مترادف تھی، کیونکہ پہلی بار ایک غیر روایتی امیدوار نے عوامی اعتماد کے ساتھ میدان مارا۔
اصلاحات اور عوامی مقبولیت
میئر کی حیثیت سے اپنے دورِ حکومت میں بالیندرا شاہ نے متعدد اصلاحات کیں جنہوں نے عوام کو براہ راست متاثر کیا۔ ان اقدامات میں سڑکوں کی صفائی ستھرائی کے نظام کو بہتر بنانا، پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھوں کو محفوظ اور قابلِ استعمال بنانا، سرکاری اسکولوں کی نگرانی کو مضبوط کرنا اور ٹیکس چوری کرنے والے نجی اسکولوں کے خلاف سخت کارروائیاں شامل تھیں۔
ان کی سب سے نمایاں پہچان کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی ہے۔ انہوں نے اپنی انتظامیہ میں شفافیت کو یقینی بنایا اور ہر سطح پر احتساب پر زور دیا۔ یہی وجہ ہے کہ عوام خصوصاً نوجوان طبقہ ان کی قیادت پر اعتماد کرتا ہے۔
ان کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2023 میں امریکی جریدے ٹائم میگزین نے انہیں دنیا کی 100 ابھرتی ہوئی شخصیات کی فہرست میں شامل کیا۔ بین الاقوامی میڈیا نے بھی ان کی قیادت اور وژن کو سراہا، جبکہ نیپال کے اندر وہ نوجوانوں کے ہیرو کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔
جنریشن زیڈ اور بالن شاہ کا مؤقف
حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر پابندی کے خلاف ہونے والے احتجاج میں جنریشن زیڈ کے نوجوان سب سے آگے تھے۔ بالیندرا شاہ نے کھل کر ان مظاہروں کی حمایت کی اور فیس بک پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ مظاہروں میں شامل نہیں ہو سکتے کیونکہ منتظمین نے عمر کی حد 28 سال رکھی ہے، لیکن وہ پوری طرح اس تحریک کے ساتھ کھڑے ہیں۔
انہوں نے نوجوانوں کو یقین دلایا کہ وہ ان کی آواز بننے کے لیے ہر فورم پر تیار ہیں اور کرپشن کے خلاف ان کا ساتھ دیں گے۔ ان کا یہ موقف نوجوان طبقے کے لیے ایک حوصلہ افزا پیغام تھا، جس سے ان کی مقبولیت مزید بڑھ گئی۔
تاہم جیسے ہی مظاہرے پرتشدد ہوگئے، وزیر اعظم نے استعفیٰ دیا اور املاک کو نقصان پہنچنے کی خبریں آئیں تو بالن شاہ نے ایک بار پھر سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو پیغام دیا۔ انہوں نے اپیل کی کہ پرامن احتجاج ہی تبدیلی کا راستہ ہے، لہٰذا مظاہرین گھروں کو واپس جائیں اور ملک کو مزید نقصان سے بچائیں۔
مستقبل کی سیاست میں کردار
نیپال کی موجودہ صورتحال غیر یقینی ضرور ہے، مگر سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ بالن شاہ آنے والے دنوں میں نیپالی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کی شفاف امیج، اصلاحات پر مبنی سوچ اور نوجوانوں میں غیر معمولی مقبولیت انہیں وزارتِ عظمیٰ کے لیے ایک مضبوط امیدوار بنا رہی ہے۔
نیپال اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں ملک کو ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو نہ صرف عوامی اعتماد حاصل کرے بلکہ ملک کو انتشار سے نکال کر ترقی کی راہ پر بھی ڈالے۔ کیا بالن شاہ وہ شخصیت ہوں گے؟ اس کا فیصلہ آنے والے دن کریں گے۔


















