کویت اُردو نیوز، 19 مئی: پاکستانی شہری سائیکل پر سوار ہوکر سعودی عرب پہنچ گیا جہاں وہ مدینہ منورہ کے تاریخی ورثے اور خوبصورتی کا گرویدہ ہوگیا۔
عرب نیوز کے مطابق زیادہ تر پاکستانیوں کی طرح کامران علی بھی سعودی عرب کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں اسلام کے مقدس ترین مقامات کے طور پر جانتے تھے لیکن
جب اس سال فروری میں انہوں نے مملکت میں قدم رکھا تو 45 سالہ علی سعودی عرب کی ثقافتی دولت اور اس کے تاریخی قلعوں، آتش فشاں اور قدیم چٹانوں اور فن کی وجہ سے ششدر رہ گئے۔
کامران علی نے گزشتہ آٹھ سالوں میں چار براعظموں کے 46 ممالک میں سائیکل چلا کر 56 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں زیادہ علم کے بغیر سعودی عرب آیا تھا کیوں کہ ہم نے جن کتابوں کا مطالعہ کیا وہ صرف مذہبی مقامات کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں، تاہم جب میں نے صحراؤں میں چٹانوں کی تشکیل، پیچیدہ نوشتہ جات اور اسلامی راک آرٹ اور تاریخی قلعے اور آتش فشاں دیکھے تو یہ ایک ناقابل فراموش تجربہ تھا۔
پاکستان کے مشرقی پنجاب صوبے کے ایک چھوٹے سے شہر لیہ میں پیدا ہونے والے علی نے کمپیوٹر سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور 2015ء میں جرمنی میں ملازمت چھوڑنے اور سائیکل چلانے کے اپنے شوق کی پیروی کرکے زندگی بدل دینے والا فیصلہ کیا،
اس کے بعد انہوں نے یورپ، ایشیاء، جنوبی امریکہ، وسطی امریکہ اور شمالی امریکہ کے شہروں میں بائیک چلائی،
ایرانی حکام کی جانب سے ویزے کے مسائل کی وجہ سے علی کو مشرق وسطیٰ کا اپنا دورہ مسقط عمان سے شروع کرنا پڑا اور اس کے بعد متحدہ عرب امارات گئے جہاں سے وہ البطحہ کی زمینی سرحد کے ذریعے 9 فروری کو سعودی عرب میں داخل ہوئے۔
بتایا گیا ہے کہ پچھلے تین مہینوں میں مسقط سے نکلنے کے بعد تقریباً 3500 کلومیٹر سائیکل چلا کر انہوں نے 12 دن قبل مکہ مکرمہ پہنچنے سے پہلے سعودی عرب کے رب الخالی، الخرج، حائل، العلا اور مدینہ منورہ کے شہروں کا جائزہ لیا،
کامران نے مدینہ منورہ جیسے مقدس شہر کو اس کے تاریخی نوشتہ جات، اسلامی راک آرٹ، قلعے اور آتش فشاں کے لیے قابل ذکر قرار دیا اور کہا کہ مدینہ اسلامی اور قبل از اسلام تاریخ کا ایک خزانہ ہے۔
کامران علی نے کہا کہ میں سعودی عرب میں راک آرٹ کے بارے میں لکھوں گا تاکہ دو مقدس مساجد سے آگے بڑھ کر ملک کے سیاحتی مقامات کو فروغ دیا جا سکے لیکن شاندار پہاڑوں، چٹانوں کی پرانی شکلوں اور صدیوں پرانے قلعوں سے زیادہ سعودی عرب کی ناقابل یقین مہمان نوازی، سخاوت اور مہربانی وہ چیز تھی جو اس کے لیے یادگار رہے گی