کویت اردو نیوز : متعدد امریکی سینیٹرز اور کانگریس کے اراکین نے فلسطینیوں اور حماس سے متعلق مواد کی تشہیر کے لیے مختصر ویڈیو ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا۔
امریکی حکومت اور سیاستدان کئی سالوں سے TikTok کو اپنی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں اور وقتاً فوقتاً امریکہ میں اس ایپلی کیشن پر جزوی اور مکمل پابندی عائد کی جاتی رہی ہے۔
تاہم حال ہی میں امریکی سیاست دانوں نے ٹک ٹاک پر مکمل پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے جب ایپلی کیشن میں فلسطینیوں اور حماس کی حمایت میں مواد دکھانا شروع ہو گیا ہے۔
عرب نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق امریکا میں زیادہ تر نوجوان فلسطین اور حماس سے متعلق مواد کو نہ صرف دیکھ رہے ہیں بلکہ ٹرینڈ کرنے والی ویڈیوز بھی بنا رہے ہیں، جس پر امریکی سیاستدانوں نے برہمی کا اظہار کیا۔
امریکی سیاست دانوں نے ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے محکمہ خزانہ کو خط لکھا ہے، جس میں اس درخواست پر اسرائیل مخالف اور یہود مخالف مواد کو فروغ دینےکاالزام لگایاگیاہے۔
اپنے خط میں، سینیٹرز اور سیاست دانوں نے ریاستہائے متحدہ میں ایک حالیہ سروے کا بھی حوالہ دیا، جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں زیادہ تر 18 سے 24 سال کی عمر کے افراد TikTok استعمال کرتے ہیں، اور وہ حملے کو فلسطینیوں کا حق سمجھتے ہیں۔ سینیٹرز اور سیاستدانوں نے مطالبہ کیا کہ امریکہ میں ٹک ٹاک پر پابندی لگائی جائے۔
دوسری جانب ٹک ٹاک نے مذکورہ معاملے پر کوئی وضاحت جاری نہیں کی تاہم ایپلی کیشن انتظامیہ کے مطابق پلیٹ فارم پر کسی بھی نفرت انگیز، پرتشدد اور انتہا پسندی کوفروغ دینےوالےموادکی تشہیرنہیں کی جاتی۔
ٹک ٹاک کے مطابق حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے بعد سے خطے سے تقریباً 10 لاکھ ویڈیوز ڈیلیٹ کی جا چکی ہیں جو تشدد اور منفی پروپیگنڈے پر مبنی تھیں۔
دوسری جانب دیکھا گیا ہے کہ امریکا میں ٹک ٹاک پر فلسطینیوں کی حمایت میں اپ لوڈ کیا جانے والا زیادہ تر مواد دیکھا جا رہا ہے اور اس پلیٹ فارم پر ’اسٹینڈ ود فلسطین‘ کے ہیش ٹیگز پر روزانہ درجنوں ویڈیوز اپ لوڈ کی جاتی ہیں
اگرچہ اسٹینڈ ود اسرائیل ہیش ٹیگ پر اپ لوڈ کی گئی ویڈیوز کو اسٹینڈ ود فلسطین سے زیادہ ملاحظات ملے، مجموعی طور پر،لیکن فلسطین کے حامی مواد کو پلیٹ فارم پر زیادہ دیکھا گیا۔