کویت اردو نیوز 08 ستمبر: 60 سالہ عمر رسیدہ افراد کے اقاموں کی تجدید نہ کرنے کے فیصلے سے کویت میں مقیم تارکین وطن خاندان الجھن کا شکار ہو چکے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پبلک اتھارٹی برائے افرادی قوت کے حالیہ فیصلے میں 60 سال کی عمر کے افراد کے ورک پرمٹس کی اگلے سال سے قبل ملک چھوڑ کر جانے سے پہلے آخری بار تجدید کا فیصلہ اور فیملی ریزیڈنسی کو ورک ویزا پر تبدیل نہ کرنے کے فیصلے نے کئی خاندانوں کو الجھن کا شکار کردیا ہے جبکہ بہت سے لوگ یہ تک نہیں جانتے کہ کویتی یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں ملازمت یا تعلیم حاصل کرنے والے اپنے بچوں کے ساتھ رہ سکتے ہیں یا نہیں۔
باپ کی زیر کفالت خاندان اور بچوں کی صورتحال گمبھیر ہے، وہ خود کو بےبس محسوس کررہے ہیں اور کئی تارکین وطن خاندانوں کی جانب سے درج کروائی گئیں شکایات اور اپیلوں میں باپ کو ان کے خاندانوں سے الگ نہ کرنے کے لئے اعلان کردہ اقدامات کا صحیح طور پر مطالعہ کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔ 60 سال سے ذیادہ عمر کے افراد اب بھی اپنے خاندانوں کے کفیل ہیں کئی افراد کے بچے ملک میں یا تو تعلیم حاصل کررہے ہیں یا نوکری پیشہ ہیں۔سینکڑوں تارکین وطن مختلف تجارتی سرگرمیوں ، جیسے تجارت ، معاہدوں یا دیگر سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں اور انکے ملک چھوڑنے سے معیشت کو منفی نقصان پہنچے گا۔
کویتی سوسائٹی برائے انسانی حقوق کے اسسٹنٹ سکریٹری جنرل، وکیل اطیاب الشطی نے تصدیق کی کہ 60 سال یا اس سے اوپر عمر کے تارکین وطن مزدوروں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے فیصلوں کا اطلاق ان لوگوں پر نہیں ہوتا ہے جن کی ملک میں سرمایہ کاری ہے۔ ان کی خدمات کو متاثر نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ان کے ورک پرمٹ کی تجدید کو روکیں گے۔
یہ خبر بھی پڑھیں: 32 ممالک پر سے پابندی ہٹائے جانے کا اجلاس
الشطی نے عرصہ دراز سے مقیم غیر ملکیوں کو مستقل رہائش نہ دینے پر قانون سازی کی کمی کی نشاندہی کی کیونکہ ان میں سے بیشتر اس ملک میں پیدا ہوئے ہیں اور وہ اتنے عرصے سے یہاں مقیم تھے کہ ان کے پاس دوبارہ آباد ہونے کے لئے کویت کے علاوہ کوئی دوسرا ملک نہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنی تمام رقم مقامی طور پر خرچ کرتے ہیں۔ الشطی نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” سب سےمناسب فیصلہ تو یہ ہے کہ کویت میں پیدا ہونے والے اور اپنی زندگی کے 60 سال کویت میں گزارنے والوں کو مستقبل رھائش فراہم کردی جائے کیونکہ ایسے لوگ کویت سے جزباتی وابستگی رکھتے ہیں۔” انہوں نے واضح کیا کہ اس طرح کے غیر منصفانہ فیصلے ایک نیا مسئلہ پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوں گے اور ایسے فیصلے آبادیاتی عدم توازن کے مسئلے کو کبھی بھی حل نہیں کر پائیں گے کیونکہ ایسے فیصلوں سے ناخواندہ یا عمر رسیدہ افراد کے ساتھ صارفین کا وہ طبقہ بھی ملک سے چلا جائے گا جسکے معیشت پر مثبت اثرات پڑتے ہیں۔
وکیل اور حقوق انسانی کے کارکن محمد العتیبی حیرت زدہ ہیں کہ لیبر انتظامیہ نے اس مقصد کے لئے فیصلے جاری ہونے سے پہلے ہی زبانی ہدایات کے مطابق عمل کیا اور بغیر کسی سرکاری فیصلے کے لین دین کو مکمل کرنے سے انکار کردیا۔ یہ عمل ایک عدالتی جھگڑا بن سکتا ہے اور انتظامی عدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔
العتیبی نے بغیر یونیورسٹی ڈگری کے ناخواندہ افراد کے ورک پرمٹس کی تجدید کے فیصلے کے حوالے سے کہا کہ اپنی آدھی سے زیادہ زندگی گزارنے والوں کو ملک سے نکالنے کا فیصلہ ٹھیک نہيں بلکہ انہیں اجازت دی جانی چاہئے کہ وہ ملک میں رہ سکیں اور انہیں اجازت دیں کہ وہ اپنے کنبے کی دیکھ بھال اور معاشرتی وجود کے تحفظ کے لئے کام کرسکیں۔