غربت اور نامساعد حالات ، بےروزگاری اور کرونا کے باعث مزید مشکل حالات نے عام آدمی کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ اگر بات کی جائے پاکستان کی تو یہاں کئی حکومتیں آئیں اور گئی لیکن مہنگائی کا غم کبھی پرانا نہیں ہوا۔ جیسے جیسے مہنگائی اور غربت کے باعث حالات بگڑتے جا رہے ہیں ویسے ویسے لوگ مانگنے کے بھی نت نئے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں، چوریاں زیادہ ہونے لگی ہیں، رشوت اور بدعنوانی عروج پر ہے اس افراتفری میں سب ہی مال بنانے اور جان بچانے میں کوشاں ہیں لیکن اگر انسان حق حلال کا کمانا چاہے تو کیا کچھ کر نہیں سکتا۔ اس کی مثال تہتر سالہ آمنہ بی بی ہیں جو اپنی خودداری اور عزت نفس کی پاسداری کرتی اسلام آباد میں پولی کلینک کے باہر پھلوں کی ریٹرھی لگائے بیٹھی ہیں۔
انہوں نے پھلوں کے ساتھ بچوں کے چپس پاپڑ جوس وغیرہ بھی رکھے ہوئے ہیں، بنیادی طور پر اٹک سے تعلق رکھنے والی آمنہ بی بی کی دوبیٹیاں ہیں لیکن ایک اکتیس سالہ بیٹی اپاہج ہے، دوسری شادی شدہ ہے۔ آمنہ بی بی کے تین بیٹے وفات پا چکے ہیں جن میں سے دو کم سنی میں جبکہ ایک اٹھارہ سال کی عمر میں ڈیم میں ڈوب کا جان کی بازی ہار گیا۔ آمنہ بی بی کہتی ہیں جوانی میں بیوہ ہوئی تو پہلے کوٹھیوں میں کام کاج کرتی تھی لیکن وہاں لوگوں کے نامناسب سلوک کی وجہ سے کام جاری نہ رکھ سکی تینتیس سال پہلے
سو روپے ادھار لے کر پھلوں کے ٹھیلہ کا کام شروع کیا، محنت میں عزت بھی ہے اور عظمت بھی۔ آمنہ بی بی کہتی ہیں کہ زندگی میں بہت مشکل وقت بھی آیا لیکن کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے۔ چٹان جیسا حوصلہ رکھنے والی باریش آمنہ بی بی نے اپنا دکھ سناتے کئی بار نم آنکھیں صاف کی۔ کہتی ہیں یہ مردوں کا معاشرہ ہے، بہت مشکل سے ان حالات میں عزت کے ساتھ گزارا کیا۔
آمنہ بی بی شکوہ کناں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا احساس ہمارے معاشرے سے ختم ہو گیا ہے، روز میلوں کا سفر پیدل طے کر کے رزق حلال کے لیے نکلتی یہ تہتر سالہ باریش خاتون کہتی ہیں کہ اگر ایک دوسرے کی بےلوث اور بےغرض مدد کر دی جائے تو شاید زندگی آسان ہو جائے۔ یہ مدد مالی امداد کی صورت میں بھلے نہ ہو لیکن اخلاقی طور پر دوسرے کی عزت نفس کا خیال رکھ کر، بدنما رویوں کے بجائے مثبت رویہ رکھ کر، دوسروں کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کر کے بھی کی جا سکتی ہے۔
بڑھتی مہنگائی نے آمنہ بی بی کو بھی پریشان کر دیا ہے، کہتی ہیں اس قدر مہنگائی ہے کہ منڈی سے مہنگا سودا ملتا ہے وہاں بھی بحث کرنا پڑتی ہے اور جب بیچنے لگتے ہیں تب گاہکوں کی باتیں بھی سننا پڑتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں حکومت کو عوام کی زندگی تنگ نہیں کرنی چاہیے، غریب کے لیے گزارا کرنا روزبروز مشکل ہو رہا ہے۔
آمنہ کا کہنا ہے کہ زندگی میں جدوجہد کرنا پڑتی ہے اللہ سے آسانیوں کے لیے دعاگو ہوں لیکن قسمت پر شکوہ کناں نہیں۔ حالات ضرور بدلیں گے۔ اس عمر میں ایسی محنت اور جذبہ قابل تعریف اور قابل تائید ہے۔ اور یقیناً ایسی خواتین مشعل راہ ہیں جو مشکل حالات کو عزم و ہمت سے شکست دی رہی ہیں۔
تحریر: زارا قاضی