کویت اردو نیوز ا8 اگست: افغانستان کے (سبکدوش) صدر اشرف غنی اس وقت اپنے خاندان کے ساتھ متحدہ عرب امارات میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مقیم ہیں۔
تفصیلات کے مطابق یواے ای کی وزارتِ خارجہ اور بین الاقوامی تعاون نے بدھ کو سبکدوش افغان صدر اشرف غنی کی ملک میں موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ امارات نیوز ایجنسی (وام) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ’’متحدہ عرب امارات کی وزارت برائے امورِخارجہ اور بین الاقوامی تعاون اس امر کی تصدیق کرسکتی ہے کہ صدر اشرف غنی اور ان کا خاندان انسانی بنیاد پر ملک میں ہے۔‘‘ لیکن اس سے زیادہ کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ اشرف غنی گذشتہ اتوار کو طالبان کے کابل میں داخلے کے بعد
افغانستان سے ایک طیارے پر سوار ہو کر بیرون ملک چلے گئے تھے۔ تب افغان وزارت داخلہ کے ایک سینیرعہدہ دار نے کہا تھا کہ صدر تاجکستان کی جانب جارہے ہیں لیکن افغان صدارتی محل نے تب سکیورٹی وجوہ کی بنا پر اس بیان کی تصدیق نہیں کی تھی۔
اشرف غنی نے روانگی کے بعد فارسی زبان میں ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا۔ اس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’’وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ وہ اپنے اعمال کے اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں۔ لوگوں کو اس صورت حال میں ضبط وتحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ان حالات میں ہماری مدد فرمائیں اورافغانستان کے ایک پُرامن مستقبل کی جانب ہماری رہنمائی فرمائیں۔‘‘ انھوں نے فیس بُک پر اپنے صفحے پر ایک تفصیلی بیان بھی جاری کیا تھا اور اس میں کہا تھا کہ ’’طالبان تلوار اور بندوق کی جنگ میں فاتح ٹھہرے ہیں، میں نے دارالحکومت کابل میں خونریزی سے بچنے کے لیے افغانستان چھوڑا ہے۔‘‘
انھوں نے طالبان سے کہا تھاکہ اب وہ افغانستان کے تمام لوگوں، قوموں، مختلف شعبوں، بہنوں اور خواتین کو یقین دہانی کرائیں، انھیں عزت دیں اور عوام کے سامنے ایک لائحہ عمل پیش کریں۔
انھوں نے لکھا کہ ’’ آج مجھے ایک مشکل انتخاب کا سامنا تھا۔ مجھے ان مسلح طالبان کا سامنا کرنا چاہیے جو محل میں داخل ہونا چاہتے تھے یا اس وطن عزیز کو چھوڑدینا چاہیے جس کا مجھے تحفظ کرنا ہے اور ساتھ گذشتہ بیس سال کا بھی تحفظ کرنا چاہیے۔ اگر اب بھی لاتعداد ہم وطن شہید ہوتے اور انھیں کابل شہر کی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا تو اس کے نتیجے میں ساٹھ لاکھ کی آبادی کے شہر میں ایک بڑی انسانی تباہی رونما ہوتی۔‘‘
یاد رہے کہ طالبان نے گذشتہ ہفتے عشرے کے دوران ملک کے بیشترعلاقوں پر کسی لڑائی کے بغیرکنٹرول حاصل کیا۔ اشرف غنی کے کابل چھوڑنے کے بعد طالبان صدارتی محل میں داخل ہوگئے تھے۔ انھوں نے تمام سرکاری تنصیبات اور عمارتوں کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ طالبان کی قیادت نے اپنے جنگجوؤں کو کابل میں شہریوں کے جان ومال اور سرکاری تنصیبات کے تحفظ کی ہدایت کی تھی۔