کویت اردو نیوز 05 دسمبر: کویت میں کام کرنے والے ہزاروں بھارتی انجینئرز نے کویت میں ان کی ملازمتوں سے محروم ہونے کے خوف سے اپنی حکومت سے اپیل کی ہے کہ
وہ کویت سوسائٹی آف انجینئرز سے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) حاصل کرنے میں ان کی مدد کرے، جو کہ کویت میں انجینئرنگ کے شعبے میں ملازمت کرنے کے لئے لازمی ہے۔
کویت انجینئرز فورم جو کہ ہندوستانی سفارت خانے کے ساتھ ایک رجسٹرڈ ایسوسی ایشن ہے، کے مطابق، کویت میں کام کرنے والے تقریباً 12,000 ہندوستانی انجینئرز کو اس وقت مشکلات کا سامنا ہے۔
این او سی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں ایک مسئلہ ہے جبکہ کویت سوسائٹی آف انجینئرز نے 800 درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے کیونکہ درخواست دہندگان نے انڈین نیشنل بورڈ آف ایکریڈیٹیشن (این بی اے) کے قیام سے پہلے کے سالوں کے دوران کالجوں سے گریجویشن کیا تھا۔
کویت سوسائٹی آف انجینئرنگ کی جانب سے 800 انجینئرز کی درخواستیں مسترد ہونے والوں میں سے ایک انجینئر کا حوالہ دیا گیا جس کا کہنا تھا کہ "میں گزشتہ 20 سال سے کویت میں بطور انجینئر کام کر رہا ہوں۔
میں نے اپنی ڈگری سال 1993 میں ایک ہندوستانی انجینئرنگ کالج سے حاصل کی تھی، جو اس وقت انڈین کونسل آف ٹیکنیکل ایجوکیشن (AICTE) کے تحت تھا اور اس وقت کوئی نیشنل ایکریڈیٹیشن بورڈ نہیں تھا جبکہ اس نیشنل ایکریڈیٹیشن بورڈ کا قیام 2005 میں قائم ہوا تھا۔
ایکریڈیشن:
اب، کویت سوسائٹی آف انجینئرز نے NBA کی ایکریڈیشن کو لازمی قرار دے دیا ہے۔ ایسوسی ایشن نے میری نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ کے لیے درخواست مسترد کر دی اور اگرچہ میرے پاس اگلے 3 سال کے لیے ایک درست اقامہ بھی ہے پھر بھی ہم این او سی سرٹیفکیٹ حاصل کیے بغیر کویت میں کام نہیں کر سکیں گے۔
کویت میں ہزاروں ہندوستانی انجینئرز ہیں جنہیں این او سی کا مسئلہ درپیش ہے اور وہ اپنی ملازمت سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔
یہ مسئلہ 2018 میں این او سی انٹرویوز کے ذریعے انجینئرنگ کی ڈگریوں کی دوبارہ منظوری کے عمل سے شروع ہوا اور بعد میں سال 2020 میں ہوا۔ کویت نے انجینئرنگ کے سرٹیفکیٹس کو کویت کی وزارت خارجہ کی طرف سے دوبارہ سیل کرنے کے بعد دوبارہ تسلیم کرنا شروع کیا۔
اس سال کے آغاز میں، کویت نے تیسرے فریق کے ذریعے انجینئرنگ کی ڈگریوں کو دوبارہ تسلیم کرنے کا عمل شروع کیا۔ آخر کار، کویت سوسائٹی آف انجینئرز نے ہندوستانی انجینئروں کے لیے اپنی نئی ضروریات طے کی ہیں، جس میں انجینئرنگ کے چار سالہ مطالعہ کے لیے انڈین نیشنل بورڈ آف ایکریڈیشن (NBA) کی منظوری حاصل کرنے کی شرط ہے۔
مزید برآں، ایسوسی ایشن اب تقاضا کرتی ہے کہ انجینئرنگ کی ڈگریوں میں مطالعہ کا مکمل کورس شامل ہو۔ اخبار نے انجینئروں میں سے ایک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ
’’کویت میں کام کرنے والے ہندوستانی انجینئرز کو صرف اس وجہ سے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ شاید کچھ لوگوں نے این او سی حاصل کرنے کے لیے جعلی انجینئرنگ سرٹیفکیٹ یا جعلی دستاویزات جمع کرائے ہوں۔
یہ درست ہے کہ کویتی حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان لوگوں کے قصوروار پائے جانے پر انہیں سزا دینے کے لیے ضروری قانونی اقدامات کرے، لیکن اس کے ساتھ ہی حقیقی انجینئرز کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔
ایک اور انجینئر کا کہنا ہے کہ “زیادہ تر ہندوستانی انجینئرز جن کی فیملی کویت میں ہیں وبائی مرض کے بعد سے ان کے اقامہ کی میعاد ختم ہو چکی ہے اور وہ فی الحال عارضی توسیع پر رہ رہے ہیں اور غیر یقینی کی یہ کیفیت انجینئرز کی زندگیوں میں بہت زیادہ تناؤ اور ہنگامہ کھڑا کر رہی ہے۔
"بہت سے انجینئرز کویت میں اپنی ملازمتوں اور رہائشی اجازت ناموں سے محروم ہو چکے ہیں جبکہ مزید ہزاروں افراد کویت سوسائٹی آف انجینئرز سے این او سی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے اپنی ملازمتوں سے محروم ہو جائیں گے۔
اگر ہندوستانی حکومت فوری کارروائی نہیں کرتی ہے تو یہ صورتحال انجینئروں کے خاندانوں کو داؤ پر لگا دے گی۔
خیال رہے کہ اگر کسی انجینئر نے اپنے ملک کے کسی کالج یا انسٹی ٹیوٹ سے گریجویشن کیا ہو اور وہ کالج یا انسٹیٹیوٹ اس ملک کے نیشنل ایکریڈیٹیشن بورڈ (این بی اے) کی طرف سے تسلیم شدہ نہیں ہوتا تو اسے کویت سوسائٹی آف انجینئرز کی جانب سے این او سی جاری نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے انہیں کہیں ملازمت بھی نہیں مل سکتی۔