کویت اردو نیوز….
اللہ رب العزت نے اپنا قرب حاصل کرنے کے لیے ہم بندوں کوپانچ وقت کی نمازوں کے ساتھ کچھ مخصوص مواقع بھی عنایت فرمائے ہیں کہ اُن مواقع پر اگر ہم نے صدق دلی سے اللہ کی تھوڑی سی بھی عبادت کرلی تو اللہ تعالیٰ اپنی شمار نعمتوں اور برکتوں سے ہمیں نوازتا ہے۔
ایسے ہی مخصوص مواقع کے طورپراللہ تعالیٰ نے ہمیں کچھ مشہور نورانی راتیں دی ہیں، مثلاً:شب قدر، شب معراج، اور شب برأت۔ شب قدر میں قرآن جیسی عظیم نعمت ملی، شب معراج میں نماز جیسا انمول تحفہ ملا اورشب برأت میں بندوں کی بے حساب مغفرت کی جاتی ہے، اس کے علاوہ اِن تمام راتوں میں بطور خاص تجلیاتِ الٰہی کاظہورہوتا ہے اور خود خالق کائنات اپنے بندوں کی طرف بطورِ خاص متوجہ رہتا ہے، اس لیے اِن مواقع پربطور خاص عبادت وریاضت اور ذکر باللہ میں مصروف رہنا چاہیے کہ اِن راتوں میں زیادہ سے زیادہ اِنعامات الٰہیہ پانے کا سنہر اموقع ملتاہے۔
لیکن یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ بعض سخت گیر لوگ معمولاتِ شب برأت کے تعلق سے عجیب وغریب باتیں کرتے نظر آتے ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہوتی۔ مثال کے طورپر مخصوص انداز میں عبادت کرنے، اوراد واذکار کرنے، شب بیداری کرنے، قبرستان جانے، حلوہ پکانے وغیرہ معمولات کو وہ بدعات وخرافات اور شرک قرار دیتے ہیں، نیزانتہائی سختی سے اُس کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔ جب کہ درحقیقت شب برات کے یہ تمام اعمال اگرچہ واجبات اور فرائض سے نہیں، مگر اِن اعمال کے مسنون ومستحب ہونے میں تمام اہل علم کا اِتفاق ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ شب برات کے مبارک و مسعود ہونے، اِس رات رحمتِ الٰہی کے نازل ہونے، اِس میں سنن ونوافل ادا کرنے، ذکر و اذکار کرنے اور مُردوں کے لیے دعائے خیر کرنے کے سلسلے میں تقریباً دس صحابہ کرام سے احادیث وآثار مروی ہیں، جن میں بالخصوص امیرالمومنین حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہماکی صحیح روایتیں شامل ہیں۔
اِس کے علاوہ مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معمولات سے بھی اِس رات شب بیداری کرنا، قبرستان جانا، ذکر واذکار کرنا، سنن ونوافل ادا کرناوغیرہ جیسے اعمال واضح طورپرثابت ہیں۔
معمولاتِ شب برات کے تعلق سے جو چند غلط فہمیاں مسلمانوں کے اندر رَائج ہیں وہ یہ ہیں :
1۔ حلوہ یامیٹھی غذائیں :
حلوہ پکانے کے بارے علما وفقہا کا متفقہ شرعی فیصلہ ہے کہ اِس رات حلوہ یامیٹھی غذائیں وغیرہ بنانا واجبی عمل نہیں، لیکن اگر کوئی ایساکرتاہے تو اِس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور نہ ہی اُس کو شرک ؍بدعت کہاجاسکتاہے۔ کیوں کہ اِس رات حلوہ کے تعلق سے نہ توواجب ہونے پرکوئی نص وارد ہے اور نہ ہی اِس کے شرک و بدعت ہونے پرکوئی نص وارد ہے۔ چنانچہ اِس خیال سے کہ میٹھی غذائیں یاحلوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھیں اِسے بنانے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اگر کوئی اِس رات حلوہ یامیٹھی غذائیں بنانا واجب اور لازمی خیال کرتا ہے تو ایسا گمان کرنامکروہ اور ناپسندیدہ عمل ہے۔
پھر عوام میں جویہ مشہور ہے کہ اِسی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس رات حلوہ تناول فرمایا تھا۔ یہ سب باتیں بالکل لغو اور بیاصل ہیں، کیوں کہ دندانِ مبارک غزوہ اُحدمیں شہید ہوئے اور یہ غزوہ بالاتفاق ماہِ شوال ہجری میں واقع ہوا، شب برات کے موقع پر نہیں۔
2۔ اَرواح کا گھروں میں آنا:
بعض لوگ اِس بات کے قائل ہیں کہ اِس رات مُردوں کی روحیں اپنے اپنے گھروں کو آتی ہیں اِس کا واضح اور صریحاً ثبوت نہیں ملتا، لیکن یہ کیا بعید کہ اللہ تعالیٰ مُردوں کی اَرواح کو کسی مثالی شکل میں اُن کے گھروں تک بھیج دے۔ اللہ رب العزت قادر مطلق ہے، وہ بھیجنے پر بخوبی قدرت رکھتاہے اور اِس میں کوئی شرعی قباحت بھی نہیں ہے۔
ابن قیم نے کتاب الروح، مسئلہ اولیٰ کے تحت لکھا ہے کہ احادیث و آثار سے یہ ثابت ہے کہ مُردے زندوں کو پہچانتے ہیں، سلام کا جواب دیتے ہیں، زندوں کے اعمال سے باخبر ہوتے ہیں اورزندوں سے مردوں کو اُنس محسوس ہوتاہے اور یہ بات شہدا کے ساتھ خاص نہیں نہ اِس میں کچھ مدت مقرر ہے۔ چنانچہ اِس معاملے میں تشدد اختیار کرنایاحتمی طورپر کچھ کہنا؍ اِس طرح کے معاملات کایکسر اِنکار کردیناعلمی طریقہ نہیں ہے، اور نہ ہی اِسے عقلمندی کہا جاسکتا ہے۔
آتش بازی اور لہو و لعب:
آتش بازی اورلہو و لعب، مثلاً پٹاخے پھوڑنا اور کھیل تماشے کرنا یہ اعمال و افعال سراسر مذموم وقبیح ہیں۔ شیخ عبدالحق محدـث دہلوی ما ثبت بالسنۃ (دربیان شہر شعبان)میں فرماتے ہیں :ہندوستان میں یہ جو بالعموم مسلمانوں کے درمیان اجتماعی طورپرلہوو لعب اورآتش بازی کا شغل مشہور و متعارف ہے اِس کی کوئی اصل نہیں ہے، نہ کسی معتبرکتاب میں اور نہ احادیث و آثار میں اِس تعلق سے کوئی ضعیف و موضوع روایت ملتی ہے، بلکہ یہ بُری رسم محض ہندوستان میں رائج ہے اور غیرمسلموں کی رسموں میں سے ایک رسم ہے۔ جب مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان تعلقات قائم ہوئے اور آپسی معاملات اورمیل جول بڑھے تواِسی روا روی میں بعض مسلمان بھی اِس شغل میں مبتلا ہوگئے۔
مزیدحضرت علی ابن ابراہیم بیان کرتے ہیں کہ آتش بازی کی شروعات سب سے پہلے برامکہ کے آتش پرستوں نے کی۔ جب وہ لوگ اسلام لائے اور دین اسلام میں داخل ہوئے تو اُن لوگوں نے آتش بازی جیسے رسوم کو بھی اسلام میں داخل کردیا۔
معلوم ہواکہ آتش بازی اور لہو و لعب کسی بھی طرح اسلامی عمل نہیں ہے بلکہ یہ غیر اسلامی عمل ہے اور شب برات جیسی مبارک رات میں غیر اسلامی عمل کرنا، اللہ تعالیٰ کی عنایات و انعامات سے محرومی کے سوا کچھ نہیں، اور ایک عقلمند یہ کیسے پسند کرلے گاکہ اللہ کی رحمت جوش پر ہو اور وہ محروم رہ جائے، اِس لئے اس رات آتش بازی اور لہو و لعب کرنے سے پہلے ہزار بار سوچ لینا چاہیے۔
قرآن مقدس میں ہے:قرابت داروں کو اُن کا حق ادا کرو، اور مسکین و مسافر کو اُن کا حق ادا کرو، اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو، کیوں کہ حد سے زیادہ خرچ کرنے والا شیطان کا بھائی ہوتا ہے اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔ (بنی اسرائیل:27-26)
اِس آیت میں تبذیر کا لفظ آیا ہے جس کے معنی ہیں :ناجائز اَعمال میں حد سے زیادہ خرچ کرنا، اور آتش بازی اور لہوولعب تبذیر میں شامل ہے۔ معلوم ہواکہ اِس رات آتش بازی اور لہو و لعب کا شغل کرنے والا پانچ طرح سے مجرم قرار پاتا ہے:
1۔ حرام کام کرنے کا مجرم،
2۔ حد سے زیادہ خرچ کرنے کا مجرم
3۔ ناشکرا ہونے کا مجرم
4۔ شیطان کی صف میں شامل ہونے کا مجرم
5۔ لہو ولعب میں ملوث ہونے کا مجرم وغیرہ
اوریہ تمام تر اَشغال خرافاتی ہیں جوکسی بھی طرح درست نہیں، بلکہ اِن خرافات کا اَنجام دینادین کو تماشا بنانے کے برابر ہے اور خود اَپنے آپ کو بھی دھوکے میں ڈالنے جیسا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:اے محبوب!اُن لوگوں کو چھوڑدیں جنھوں نے دین کوکھیل بنایاہواہے اور اپنی دنیوی زندگی کو بھی مذاق بنارکھا ہے۔ (انعام:70)
1۔ شب برات کے موقع پر کما حقہ طاعت وبندگی کا حق ادا ہوگا۔
2۔ مُردوں کے حق میں فائدہ ہوگا۔
3۔ حرام اعمال سے بچاو ہوگا۔
4۔ غیر محل میں مال خرچ کرنے اوراَللہ کا ناشکرا ہونے سے سلامتی ملے گی۔
خلاصہ کلام یہ کہ شب برات کے موقع پر شب بیداری، سنن ونوافل، تلاوت ودرود کی کثرت، فاتحہ و محافل اَذکار کا انعقاد، اپنے مُردوں کے نام پر ایصال ثواب وغیرہ کارِ خیر سنت و عملِ صحابہ اور تابعین و اسلاف کے معمولات سے ثابت ہیں، البتہ!آتش بازی اور لہوولعب سخت حرام ہے اِس حرام شغل سے یقینی طورپر بچنا چاہیے ورنہ دنیا وآخرت دونوں میں سزاکے مستحق ہوں گے۔