مسلم معاشرہ آج جن برائیوں کا شکار ہے ان میں ایک اہم اور خطرناک بیماری حسد، کینہ اور بغض کی ہے۔ حسد نفسانی امراض میں سے ایک مرض ہے اور ایسا غالب مرض ہے جس میں حاسد اپنے اندر جلتا رہتا ہے۔ ’’حسد‘‘ اسے کہتے ہیں کہ کسی کے پاس اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ اُس سے یہ نعمت چھن جائے، چاہے مجھے حاصل ہو یا نہ ہو۔
یہ ایک ایسی باطنی اور روحانی بیماری ہے جو انسان کے سینے میں کینہ، بغض اور کھوٹ کا بیج بودیتی ہے جس سے انسان کے تمام نیک اعمال تلف ہوجاتے ہیں اور اُس سے اعمالِ صالحہ کی توفیق اللہ تعالیٰ چھین لیتے ہیں۔
معاشرتی زندگی کے حوالے سے مختلف مواقع پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو حسد، کینہ، بغض اور ان جیسی دیگر باطنی اور روحانی بیماریوں سے بچنے کی ہمیشہ تاکید فرمائی ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق و اتحاد، موافقت ویگانگت اور بھائی چارگی کی تعلیم دی ہے چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ”
آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرو، نہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بغض رکھو اور نہ ہی آپس میں ایک دوسرے سے قطع تعلق کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہوجاؤ” (صحیح مسلم)
ایک دوسری روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’حسد سے بچو، کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔‘‘
اور ایک روایت میں آیا ہے، ’’ حسد نیکیوں کے نور کو بجھا دیتا ہے۔‘‘
(سنن ابی داؤد)
ایک اور روایت میں آتا ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، کہ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا، تو اتنے میں ایک انصاری آئے، جن کی داڑھی سے وضو کے پانی کے قطرے گر رہے تھے اور اُنہوں نے بائیں ہاتھ میں جوتیاں لٹکا رکھی تھیں۔ اگلے دن پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی بات فرمائی، تو پھر وہی انصاری اسی طرح آئے جس طرح پہلی مرتبہ آئے تھے۔
تیسرے دن پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ویسی ہی بات فرمائی اور وہی انصاری اسی حال میں آئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجلس سے اُٹھے تو حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما اُس انصاری کے پیچھے گئے اور اُن سے کہا: ’’میرا والد صاحب سے جھگڑا ہوگیا ہے جس کی وجہ سے میں نے قسم کھالی ہے کہ میں تین دن تک اُن کے پاس نہیں جاؤں گا۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو آپ مجھے اپنے ہاں تین دن ٹھہرالیں؟۔‘‘ اُنہوں نے کہا ’’ضرور‘‘ پھر حضر ت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ ’’میں نے اُن کے پاس تین راتیں گزاریں لیکن میں نے اُن کو رات میں زیادہ عبادت کرتے ہوئے نہ دیکھا، البتہ جب رات کو اُن کی آنکھ کھل جاتی تو بستر پر اپنی کروٹ بدلتے اور تھوڑا سا اللہ کا ذکر کرتے اور ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے اور نمازِ فجر کے لیے بستر سے اُٹھتے۔ ہاں، جب بات کرتے تو خیر ہی کی بات کرتے۔ جب تین راتیں گزر گئیں اور مجھے ان کے تمام اعمال عام معمول ہی کے نظر آئے (اور میں حیران ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے بشارت تو اتنی بڑی دی لیکن ان کا کوئی خاص عمل تو ہے نہیں) تو میں نے اُن سے کہا ’’اے اللہ کے بندے، میرا والد صاحب سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا، نہ کوئی ناراضگی ہوئی اور نہ میں نے اُنہیں چھوڑنے کی قسم کھائی، بلکہ قصہ یہ ہوا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے بارے میں تین مرتبہ یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ ’’ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آنے والا ہے۔‘‘ اور تینوں مرتبہ آپ ہی آئے۔ اِس پر میں نے سوچا کہ میں آپ کے ہاں رہ کر آپ کا خاص عمل دیکھوں اور پھر اس عمل میں آپ کے نقشِ قدم پر چلوں۔ میں نے آپ کو کوئی بڑا کام کرتے ہوئے تو دیکھا نہیں تو اب آپ بتائیں کہ آپ کا وہ کون سا خاص عمل ہے، جس کی وجہ سے آپ اس درجہ کو پہنچ گئے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا؟ اُنہوں نے کہا کہ
’’میرا کوئی خاص عمل تو ہے نہیں، وہی اعمال ہیں جو تم نے دیکھے ہیں۔‘‘ میں یہ سن کر چل پڑا۔ جب میں نے پشت پھیری تو اُنہوں نے مجھے بلایا اور کہا البتہ یہ ایک خاص عمل ہے کہ ’’میرے دل میں کسی مسلمان کے بارے میں کھوٹ نہیں ہے اور کسی کو اللہ نے کوئی خاص نعمت عطا فرما رکھی ہو تو میں اس پر اُس سے ’’حسد‘‘ نہیں کرتا۔‘‘ میں نے کہا کہ: ’’اسی چیز نے آپ کو اتنے بڑے درجے تک پہنچایا ہے۔‘‘ ( حیاۃ الصحابہؓ،ج:2، ص:458 )
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’دو شخصوں کے سوا کسی پر ’’حسد‘‘ کرنا جائز نہیں ایک وہ شخص کہ جس کو حق تعالیٰ شانہ نے قرآن شریف کی تلاوت عطا فرمائی ہو، اور وہ دن رات اس میں مشغول رہتا ہو۔ اور دوسرا وہ شخص کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کی فراوانی عطا فرمائی ہو اور وہ دن رات اس کو خرچ کرتا ہو۔‘‘ (صحیح بخاری) اسمٰعیل بن اُمیہؒ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’تین چیزیں ایسی ہیں جن سے آدمی عاجز نہیں
1۔ بد شگونی
2۔ بدظنی
3۔ حسد
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: ’’بدشگونی سے تجھے نجات اس طرح مل سکتی ہے کہ تو اُس پر عمل ہی نہ کر۔ اور بد ظنی سے تجھے نجات اس طرح مل سکتی ہے کہ تو اُس کے بارے میں بات ہی نہ کر۔ اور حسد سے تجھے نجات اس طرح مل سکتی ہے کہ تو اپنے مسلمان بھائی کی برائی کے پیچھے مت پڑ۔ (جامع معمر بن راشد، ص:403)
مضارب بن حزنؒ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ لوگوں کو حضرت عثمانؓ کے قتل پر کس چیز نے اُبھارا؟ تو آپؓ نے فرمایا کہ ’’حسد‘‘ نے۔‘‘ (کتاب السنۃ،ج:2، ص:556)
امام ابن عیینہؒ فرماتے ہیں کہ ’’ حسد‘‘ وہ پہلا گناہ ہے جو آسمان پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیا، یعنی شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام پر حسد کیا اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جو زمین پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے کیا گیا یعنی حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے نے اپنے بھائی پر حسد کیا اور اُس کو قتل کردیا۔ (المجالسۃ وجواہر العلم،ج: 3،ص:51)
امام اصمعیؒ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے بنو عذرہ نامی قبیلہ میں ایک اعرابی (بدو) کو دیکھا جس کی ایک سو بیس سال عمر تھی، میں نے اُس سے پوچھا کہ تمہارے اتنی لمبی عمر کا راز کیا ہے؟ تو اُس نے بتایا کہ: ’’میں نے حسد کرنا چھوڑ دیاہے، اس لیے ابھی تک باقی (زندہ) ہوں۔‘‘ (المجالسۃ وجواہر العلم،ج: 3، ص:52)
رجاء بن حیوۃؒ فرماتے ہیں کہ ’’ جو کوئی موت کو اکثر یاد کرتا ہو وہ ’’حسد‘‘ اور ’’خوشی‘‘ کو ترک کردیتا ہے۔‘‘(حلیۃ الاولیاء، ج:5، ص: 73)
الغرض حسد، کینہ، بغض اور کھوٹ یہ ایسی باطنی اور روحانی بیماریاں ہیں جو اوّل تو انسان کو نیک اعمال کی طرف راغب ہی نہیں ہونے دیتیں، بلکہ اُلٹا پہلے سے جو نیک اعمال اُس نے کیے ہوتے ہیں، اُن کو بھی کو ضائع کردیتی ہیں اور اس طرح رفتہ رفتہ انسان اعمالِ صالحہ سے دور ہوتے ہوتے معاصی اور گناہوں کی دلدل میں پھنس جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اُس سے اعمالِ صالحہ کی توفیق چھین لیتے ہیں، اور وہ کوئی نیک عمل نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالی اپنے خصوصی فضل و کرم سے ہماری اور امت مسلمہ کی اس سے حفاظت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین