عبد الرحمن بن حمود السميط (15 اكتوبر 1947 – 15 اگست 2013) دور حاضر کی عظیم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ نامور کویتی شیخ داعی عبد الرحمن بن حمود السمیط کے ہاتھوں 11 ملین (ایک کروڑ 20 لاکھ) سے زائد افراد نے اسلام قبول کیا۔ شاید پوری اسلامی تاریخ میں یہ اعزاز کسی کو حاصل نہیں۔
کویت کے ایک رئیس گھرانے میں پیدا ہوئے۔ یہ بچپن سے ہی ملنسار اور دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنے والے رقیق القلب انسان تھے۔ انھوں نے دوسروں کی مدد کے لیے اپنے وطن میں عیش و عشرت کی زندگی کو چھوڑ کر افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں جانے کو ترجیح دی اور وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ انہوں نے دعوت اسلامی اور یتیموں اور بے کسوں کی مدد کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا تھا۔
افریقہ میں دعوت اسلامی کی تقریباً 29 سالہ مدت میں ان کے ہاتھوں 11.2 ملین سے زیادہ افراد نے اسلام قبول کیا۔تقریباً 5700 مساجد تعمیر کروائیں، تقریباً 15000 یتیموں کی کفالت کی، پینے کے پانی کے لیے تقریباً 9500 کنویں کھدوائے، 860 مدارس بنوائے، 4 جامعات قائم کیے اور 204 اسلامی مراکز قائم کیے۔ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے سعودی عرب نے ان کو شاہ فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا۔
افریقہ میں دوران قیام ان پر کئی بار جان لیوا حملے بھی ہوئے۔ الحمد للہ وہ ان حملوں سے محفوظ رہے اور دعوتی سفر میں موزمبیق اور کینیا وغیرہ کے جنگلات میں کئی بار جنگلی جانوروں کی زد میں آئے۔ زہریلے سانپوں نے ان کو کئی بار ڈسا لیکن اللہ نے ان کو بچا لیا۔ شیخ نے اپنی زندگی کا ایک انتہائی حسین واقعہ ذکر کرتے ہوئے بتایاکہ ”افریقہ میں ایک قبیلہ آباد ہے، ویسے تو کئی قبائل ہیں لیکن (نام لئے بغیر انہوں نے کہا) کہ ایک قبیلہ ہے جس میں انتہائی درجہ کی غربت اور فقر وفاقہ ہے۔ اس قبیلہ پر عیسائی مشنریز نے 40 برسوں تک کام کیا اس کی خدمت کی اور 4 ملین ڈالر سے زائد خطیر رقم خرچ کی لیکن جب ہم وہاں گئے اور ہم نے انہیں دعوت دی اور اپنی استطاعت کے مطابق رفاہی کام کیا تو اس قبیلہ کے 98 فیصد لوگوں نے ہم سے متاثرہوکر اسلام قبول کرلیا۔”
شیخ کو دو بار جیل میں بھی قید کیا گیا۔ پہلی بار 1970ء بغداد کی جیل میں رکھا گیا اور قریب تھا کہ ان کو سزائے موت دی جاتی لیکن اس بار بھی اللہ نے ان کو محفوظ رکھا جبکہ دوسری بار 1990ء میں کویت اور عراق کے مابین جنگ کے دوران انہیں گرفتار کیا گیا اور شدید ترین اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہاں تک کہ ان کی پیشانی اور ہاتھ پیر سے گوشت نوچا گیا۔ اس سلسلے میں کبھی تذکرہ نکلتا تو وہ کہتے کہ مجھے اس وقت یقین تھا کہ موت صرف اسی وقت آئے گی جس وقت اللہ نے میری تقدیر میں لکھی ہوگی۔ وہ اپنے آبائی وطن کویت بہت کم آتے تھے بس رشتے داروں کی زیارت یا علاج کے لیے ہی آتے تھے۔
کافی عرصے سے علیل چل رہے تھے اور ایک بار تو ان کی وفات کی افواہ بھی اڑ گئی تھی۔ بالآخر 15 اگست 2013ء کو شیخ دنیا کے بہت سے یتیموں اور مسکینوں کو حقیقت میں یتیم کرکے اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے۔ کویت کے وقت کے مطابق صبح کے ساڑھے آٹھ بجے ان کی تدفین وتکفین ہوئی۔ اللہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطاء فرمائے آمین۔