رحمت اللعالمینﷺکی63 سالہ حیات مبارکہ قدم بقدم
رحمت اللعالمین، احمد مجتبیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت جزیرہ نما عرب کے شہر مکہ میں ہوئی جہاں اس وقت قبائلی نظام رائج تھا۔ وہ لوگ لکھنے کو برا خیال کرتے اور مضبوط حافظے کو ترجیح دیتے تھے، البتہ نسب کو یاد کرنا اور اہمیت دینا ان کا خاصہ تھا۔ رسالت مآب ﷺ کی ولادت کا سال عام طور پر عام الفیل مہینہ ربیع الاول دن پیر یا جمعہ جبکہ تاریخ میں 9 یا 12 کو ترجیح دی جاتی ہے۔
عیسوی حساب سے قاضی محمد سلیمان منصور پوری کی تحقیق کے مطابق 22 اپریل571ء جبکہ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کے مطابق 20 اپریل571ء ہے۔ عام طور پر دنیا بھر میں مسلمان 12 ربیع الاول ہی کو یوم ولادت قرار دیتے ہیں۔ دادا جان عبد المطلب کی طرف سے آپ ﷺ کا اسم گرامی محمد رکھا گیا جبکہ آپ کی والدہ محترمہ آمنہ کی طرف سے آپ کا نام احمد تجویز ہوا۔
ابو لہب کی آزاد کر دہ باندی ثویبہ نے چند دن دودھ پلانے کے بعد شرفاء قریش کی عادت کے مطابق آپ ﷺ کو حضرت حلیمہ سعدیہؓ کی رضاعت میں دے کر مضافات مکہ میں بھیج دیا۔ اس وقت آپ ﷺ آٹھ دن کے تھے۔ ولادت کے چوتھے سال شق صدر کا واقعہ پیش آیا، مؤرخین لکھتے ہیں کہ شق صدر کا واقعہ چار بار پیش آیا، ایک زمانہ طفولیت میں حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے پاس، دوسری بار دس سال کی عمر میں پیش آیا۔ (فتح الباری،ج: 13،ص:481) تیسری بار واقعہ بعثت کے وقت پیش آیا۔ (مسند أبی داؤد ص:215) اور چوتھی بار واقعہ معراج کے موقع پر (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 349) بعض نے پانچویں بار کا شق صدر بھی ذکر کیا ہے لیکن یہ صحیح قول کے مطابق ثابت نہیں ہے۔ (سیرۃ المصطفیٰ ﷺ ج: 1،ص:75)
رسالت مآب ﷺ تقریباً چھ سال تک حلیمہ سعدیہؓ کی پرورش میں رہے۔ ولادت کے چھٹے سال آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے اپنے میکے میں ایک ماہ کا قیام کیا، وہاں سے واپسی پر مقام ابواء میں ان کا انتقال ہوا اور وہیں مدفون ہوئیں۔ (شرح المواہب للزرقانی، ج:1، ص:160) ولادت کے ساتویں سال آپ ﷺ اپنے دادا عبد المطلب کی تربیت میں پروان چڑھتے رہے اور ولادت کے آٹھویں سال دادا جان کا انتقال ہو گیا۔ دادا کے انتقال کے بعد آپ ﷺ اپنے چچا ابو طالب کی پرورش میں آ گئے۔ (طبقات ابن سعد،ج:1،ص:74) اور ولادت کے بارھویں سال آپ ﷺ نے اپنے چچا کے ساتھ شام کے پہلے تجارتی سفر میں شرکت کی، اسی سفر میں بحیرہ راہب نے آپ ﷺ کی نبوت کی پیش گوئی بھی دی۔ (الخصائص الکبری،ج:1،ص:84) اور ولادت کے چودہویں سال یا پندرہویں سال اور بعض روایات کے مطابق بیسویں سال عربوں کی مشہور لڑائی ’’حرب الفجار‘‘ پیش آئی، اس جنگ میں آپ اپنے چچا کے اصرار پر شریک تو ہوئے لیکن قتال میں حصہ نہیں لیا۔ (روض الانف،ج:1 ص:120) اور ولادت کے سولہویں سال میں آپ ﷺ نے اہل مکہ کے حلف الفضول نامی معاہدے میں شرکت کی اور ولادت کے پچیسویں سال آپ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کا مال لے کر تجارت کا دوسرا سفر شام کی طرف کیا، سفر سے واپسی پر اس سفر میں پیش آنے والے واقعات، تجارتی نفع اور آپ ﷺ کے اخلاقی واقعات سن کر دو مہینہ اور پچیس روز کے بعد حضرت خدیجہ ؓ نے آنحضرت ﷺ کو نکاح کا پیغام بھجوا کر نکاح کر لیا۔ (طبقات ابن سعد،ج:1،ص:83)
اور ولادت کے پینتیسویں سال آپ ﷺ نے بیت اللہ کی ہونے والی تیسری تعمیر کے وقت حجر اسود کو اپنے دست اقدس سے نصب فرما کر خانہ جنگی کے لیے کمر بستہ قبائل قریش کےدرمیان باہمی محبت والفت پیدا فرما دی اور اس کٹھن مرحلے کو بحسن وخوبی انجام خیر تک پہنچایا۔ (سیرت ابن ہشام،ج:1،ص:65)
حیات طیبہ کے انتالیس سال تک رسول اللّٰہ ﷺ کا کردار ایسا بےمثال رہا کہ اپنے تو اپنےغیروں کی زبان پر آپ ﷺ کے بارے میں تھا کہ آپ ﷺ صادق اور امین ہیں۔ ولادت کے چالیسویں سال میں آپ نے زیادہ وقت غار حرا میں گزارا اور اسی مقام پر آپؐ کو نبوت عطا کی گئی۔ نبوت کے پہلے سال غار حرا میں آپ ﷺ پر سورۂ علق کی پہلی پانچ آیات نازل ہوئیں۔ (شرح المواہب،ج: 1،ص:208) مؤرخین کے مطابق آپ ﷺ کو نبوت اتوار کے دن عطا ہوئی لیکن مہینہ کے بارے میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ ابن عبد البر رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک آپؐ آٹھ ربیع الاول کو نبوت سے سرفراز ہوئے، اس قول کی بنا پر بوقتِ بعثت آپﷺ کی عمر چالیس سال تھی جبکہ ابن اسحاق کے قول کے مطابق سترہ رمضان کو نبوت ملی، اس قول کے مطابق بوقتِ بعثت عمر چالیس سال اور چھ ماہ تھی، حافظ ابن حجر عسقلانی نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔(فتح الباری، کتاب التعبیر، ج:12، ص:313) نبوت کے دوسرے سال خفیہ تبلیغ فرماتے رہے، اسی سال حضرت خدیجہؓ، حضرت ورقہ بن نوفلؓ، حضرت علی المرتضیٰؓ، حضرت ابو بکر صدیق ؓ، حضرت جعفر بن ابی طالبؓ، حضرت عفیف کندیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت خالد بن سعیدؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت عمارؓ، حضرت صہیبؓ، حضرت عمرو بن عنبسہؓ اور زید بن حارثہ ؓ ایمان لائے۔
یہ سب اور کچھ دیگر حضرات صحابہؓ سابقین اولین کہلائے۔ نبوت کے تیسرے سال آپ کے متبنٰی حضرت زید بن حارثہ ؓ کے بیٹے حضرت اسامہؓ کی ولادت ہوئی۔ نبوت کے چوتھے سال آپﷺ کو علی الاعلان دعوتِ دین دینے کا حکم ہوا جس کی بنا پر کفار خصوصاً قریش کی طرف سے بھی کھلم کھلا دشمنی اور بغض وعداوت کا مظاہرہ ہونے لگا اور اسی سال حضرت عائشہ ؓ کی ولادت ہوئی۔ نبوت کے پانچویں سال حضرت جعفر بن ابی طالبؓ مشرف بہ اسلام ہو ئے۔
اسی سال حبشہ کی طرف پہلی اور دوسری ہجرت ہوئی۔ پہلی ہجرت میں گیارہ مرد اور پانچ عورتیں شامل تھیں۔ (فتح الباری،ج:1،ص:18) اور دوسری ہجرت میں چھیاسی مرد اور سولہ عورتیں شامل تھیں۔ (سیرۃ ابن ہشام،ج:1،ص:111) اسی سال حضرت سمیہؓ کو ابو جہل ملعون کے ہاتھوں شہادت نصیب ہوئی۔ یہ اسلام کی خاطر شہید ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔ نبوت کے چھٹے سال حضرت حمزہ ؓ اور حضرت عمر ؓ مشرف بہ اسلام ہو ئے اور ان کی برکت سے مسجد الحرام (خانہ کعبہ) میں نماز اعلانیہ ادا کی گئی۔ (شرح المواہب، ج:1، ص:276)
نبوت کے ساتویں سال مقاطعۂ قریش کا واقعہ پیش آیا۔ آنحضرتﷺ کے ساتھ بنو ہاشم اور بنو مطلب شعب ابی طالب میں محصور کر دئیے گئے۔ اسی دوران رسول اللّٰہ ﷺ کے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن عباس ؓ کی ولادت ہوئی۔ (روض الانف،ج: 2،ص:232) (جاری ہے)
نبوت کے آٹھویں سال مشرکین مکہ کے مطالبہ پر شق القمر کا مثالی معجزہ رو نما ہوا۔ (البدایہ والنہایہ ج:3، ص: 118) نبوت کے نویں سال میں بھی شعب ابی طالب میں ہی محصور رہے۔ نبوت کے دسویں سال شعب ابی طالب کا حصار ختم ہوا۔ (طبقات ابن سعد، ج:1، ص:139) اور اسی سال چچا ابو طالب کا انتقال ہوا۔ ان کے انتقال کے تقریبا ً تین یا پانچ دن بعد حضرت خدیجہؓ کا انتقال ہوا اسی وجہ سے نبی کریم ﷺ نے اس سال کو عام الحزن قرار دیا۔ (شرح المواہب ج: 1 ص:291) اسی سال رسالت مآب ﷺ کا نکاح حضرت سودہ بنت زمعہ ؓ سے ہوا، حضرت عائشہ ؓ سے بھی نکاح ہوا لیکن رخصتی نہیں ہوئی، واقعہ طائف بھی اسی سال پیش آیا۔ (البدایہ والنہایہ،ج:3،ص:135) نبوت کے گیارہویں سال مدینہ کے حاجیوں کو نبی اکرم ﷺ نے دعوت اسلام دی۔ ان میں سے تقریباً چھ آدمی مشرف بہ اسلام ہوئے، اس طرح انصار مدینہ کے اسلام کا آغاز ہوا۔ (البدایہ والنہایہ، ج:3، ص:148) نبوت کے بارھویں سال رحمت اللعالمین ﷺ کو معراج ہوئی، اسی موقع پر امت پر پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔ اسی سال بیعت عقبۂ اولیٰ ہوئی، اس میں 12، اَفراد مشرف بہ اسلام ہوئے۔ (شرح المواہب، ج:1، ص:316) نبوت کے تیرھویں سال بیعت عقبہ ثانیہ ہوئی جس میں 83 مرد اور 2 عورتوں نے اسلام قبول کیا۔ اسی سال مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کی اجازت ملی۔ اسی سال قریش نے نعوذ باللہ! نبی کریم ﷺ کو قتل کا منصوبہ بنایا۔ حضرت جبرئیل امین نے آکر قریش کی سازش سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہاں سے ہجرت کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی ہے۔ اجازت ملنے پر خاتم النبیین ﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ ؓ کو ساتھ لے کر مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
نبی اکرم ﷺ کی بعد ہجرت کی حیات مبارکہ کو ’’مدنی دور‘‘ کہا جاتا ہے جو بڑا تابناک دور ہے جس میں آپؐ کی اَن تھک کوششوں، محنتوں اور قربانیوں کے سبب اسلام کو غلبہ ملا۔ آپ کی جانثار جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے اسلام کی نشر واشاعت کے لیے رسالت مآب ﷺ کے اشاروں پر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر کے ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے، اس بے مثال دور کا نقشہ کھینچنے کی منظر کشی اتنی طویل ہے کہ شاید کئی ضخیم مجلدات بھی ناکافی ہوں۔ ذیل میں بہت ہی اختصار کے ساتھ ہجرت کے بعد کی زندگی کو اشارۃً بطور ایک جھلک پیش کیا جارہا ہے۔ ہجرت کا پہلا سال رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کے ہمراہ تین دن غار ثور میں رُوپوش رہنے کے بعد یکم ربیع الاوّل مدینہ منورہ کی جانب ہجرت فرمائی، اسلام کی پہلی مسجد قباء کی بنیاد رکھی اور مدینے کے یہودی اور آس پاس کے رہنے والے قبیلوں سے امن اور دوستی کے عہد نامے ہوئے۔ اسی سال حضرت سلمان فارسی ؓ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ مسجد نبوی تعمیر ہوئی۔ اذان واقامت کی ابتدا ہوئی۔ انصار اور مہاجرین کے درمیان ایک مثالی بھائی چارہ قائم ہوا جس کی نظیر تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ اسی سال شوال میں حضرت عائشہ ؓ کی رخصتی ہوئی۔ ہجرت کےدوسرے سال مسلمانوں پر جہاد فرض ہوا، رمضان کے روزے، زکوٰۃ، صدقۃالفطر اور عیدین کی نمازیں بھی فرض ہوئیں۔ مسجد اقصیٰ کے بجا ئے بیت اللہ کو جہت قبلہ قرار دیاگیا۔ حضرت فاطمۃالزہرا ؓ کا نکاح حضرت علی ؓ سے ہوا۔ نبی اکرم ﷺ کی لخت جگر حضرت رُقیہ ؓ کا وصال ہوا۔ حق وباطل کا پہلا معرکہ غزوہ بدر اسی سال پیش آیا۔ ہجرت کے تیسرے سال رسول اللہ ﷺ کا حضرت حفصہ بنت عمرفاروق اور اس کے بعد حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنھم اجمعین سے نکاح ہوا۔ حضرت حسن بن علی ؓ کی ولادت ہوئی، آپ ﷺ کی بیٹی حضرت اُم کلثوم ؓ کا حضرت عثمان ؓ سے نکاح ہوا۔
گستاخان رسول کعب بن اشرف اور ابو رافع کو جہنم رسید کیاگیا۔ اسی سال غزوۂ اُحد ہوئی۔ ہجرت کے چوتھے سال بنو نظیر کی جلاوطنی اور حضرت حسینؓ کی ولادت ہوئی، اسی سال آنحضرت ﷺ کا حضرت ام سلمہ ؓ سے نکاح ہوا اور شراب کے حرام ہونے کا حکم بھی نازل ہوا۔ ہجرت کے پانچویں سال شرعی پردہ اور زنا کی سزا کا احکام نازل ہوئے، صلاۃ الخوف کی مشروعیت ہوئی، تیمم کی اجازت ملی، واقعہ افک پیش آیا۔ اور حضرت عائشہ ؓ کی شان میں سورۃ نور نازل ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ کا حضرت جویریہ بنت حارث اور حضرت زینب بنت حجش رضی اللہ عنہم اجمعین سے نکاح ہوا۔ غزوہ خندق، غزوہ بنی مصطلق اور غزوہ بیر معونہ کے واقعات رونما ہوئے۔ جس میں 70، حفاظ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کو دھوکے سے شہید کیا گیا۔ ہجرت کے چھٹے سال صاحب ثروت مسلمانوں پر حج فرض ہوا۔ سورۃ الفتح نازل ہوئی۔ اسی سال حدیبیہ کی صلح ہوئی، آپ ﷺ 1400 صحابہ کرام کے ہمراہ حج کے لیے روانہ ہوئے، اسی طرح صلح حدیبیہ سے واپسی پر دیگر ممالک کے بادشاہوں کو دعوتی خطوط روانہ فرمائے۔ مدینہ منورہ میں قحط پڑا جو رسول اللہ ﷺ کی دعا سے دور ہوا۔ ہجرت کے ساتویں سال غزوۂ خیبر پیش آیا۔ اس غزوہ سے واپسی پر لیلۃ التعریس کا واقعہ پیش آیا جس میں پورے لشکر کی نماز فجر قضا ہوئی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے اسلام قبول کیا۔ ایک یہودی عورت زینب بنت حارث کی طرف سے آپ ﷺ کو زہر دینے کی کوشش کی گئی، رسول اللہ ﷺ کا حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان ، حضرت میمونہ بنت حارث اور حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہم اجمعین سے نکاح ہوا، حضرت صفیہؓ رسول اللہ ﷺ کی آخری زوجہ ہیں۔ ہجرت کے آٹھویں سال حضرت خالد بن ولید اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما مشرف بہ اسلام ہوئے، آپ ﷺ نے عمرۃ القضاء فرمایا، غزوۂ موتہ اور فتح مکہ کا عظیم الشان واقعات پیش آئے۔
حضرت ابوسفیانؓ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ غزوۂ حنین وطائف ہوئے۔ حضرت ابوبکر ؓ کے والد ابو قحافہ ؓ نے اسلام قبول کیا۔ اسی سال آپ ﷺ کے صاحب زادے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے۔ ہجرت کے نویں سال غزوہ تبوک پیش آیا، اس غزوہ سے واپسی پر منافقین کی بنائی ہوئی مسجد ضرار کو منہدم کیا گیا۔ رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی سلول کی موت ہوئی۔ 70 سے زائد وفود آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ سورۃ التوبہ نازل ہوئی۔ اسی سال رسول ﷺ نے اپنی ازواجؓ سے ایلا کیا اور قسم کھائی کہ ایک مہینہ تک تمہارے قریب نہیں آؤں گا۔ اسی سال رسالت مآب ﷺ گھوڑے سے گرے جس کی وجہ سے دائیں پہلو اور پنڈلی پر خراش آئی، اسی سال حج فرض ہوا، حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو امیر الحج بنا کر تین سو افراد کے ساتھ حج کے لیے بھیجا گیا۔ ہجرت کے دسویں سال مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ حجۃ الوادع کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے خطبہ حج دیا۔ اس خطبے میں آپ ﷺ کی تمام 9 ازواج مطہرات رضی اللہ عنھم اجمعین موجود تھیں، اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ اس موقع پر اسلام کے سارے اصول سمجھا دئیے گئے۔ جاہلیت کی رسموں اور شرک کی باتوں کوا پنے پاؤں تلے روند ڈالا گیا اور اسی سال امت مسلمہ کو الوداع کہتے ہوئے نبی اکرم حضرت محمد مصطفی ﷺ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللھم صلی علی سیدنا و مولانا محمد و علی آلہ و صحبہ وسلم۔
کالم نگار: نور حسین افضل
اسلامک اسکالر، مصنف، کالم نویس
صدر: پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (مشرق وسطی)