کویت اردو نیوز 27 جنوری: پاکستانی روپیہ جمعرات کو ڈالر کے مقابلے میں تاریخی کم ترین سطح پر گر گیا، زیادہ سے زیادہ شرح مبادلہ اٹھائے جانے کے بعد جب اسلام آباد نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے ایک انتہائی ضروری ریسکیو پیکج کا مطالبہ کیا۔
پاکستان ایک مشکل معاشی صورتحال کا مشاہدہ کر رہا ہے کیونکہ غیر ملکی قرضوں سے نمٹنے کے لیے بظاہر نہ ختم ہونے والی کوششوں کی روشنی میں زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً تین ہفتوں کے لیے درآمدات کی قیمت ادا کرنے کے علاوہ کافی نہیں ہیں۔
متعدد ذرائع کے مطابق، جمعرات کو سرکاری انٹربینک مارکیٹ میں روپیہ 24.11 کی کمی سے 255.43 روپے تک پہنچ گیا۔
ٹاپ لائن سیکیورٹیز نے کہا کہ روپے کی قدر میں کمی 9.6 فیصد رہی جو کہ ایک سیشن میں دوسری سب سے بڑی کمی ہے۔ اس سے قبل 240 روپے کی سرکاری گراوٹ جولائی 2022 میں ریکارڈ کی گئی تھی جب پاکستان کی طویل عرصے سے مشکلات کا شکار معیشت سیاسی افراتفری اور تباہ کن سیلاب سے تباہ ہو گئی تھی۔
2019 میں، سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے اربوں ڈالر کے قرضے کے پیکیج پر بات چیت کی۔
لیکن معیشت اس وقت گر گئی جب عمران خان نے سبسڈی اور مارکیٹ کی مداخلتوں کو کم کرنے کے اپنے عہد کو ترک کر دیا جس نے زندگی کے بحران کی لاگت کو کم کر دیا تھا۔
وزیر اعظم شہباز شریف، جنہوں نے گزشتہ موسم بہار کے آخر میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد عمران خان کی جگہ لی، اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کی روشنی میں قرض کی شرائط پوری کرنے سے ہچکچائے۔
ایسوسی ایشن آف پاکستان کرنسی ایکسچینج کمپنیز کے سربراہ، ظفر پراچہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ کیپ بدھ کو "مرکزی بینک کی مشاورت سے” ہٹائی گئی تھی۔ بدلے میں، ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سی ای او، محمد سہیل نے اے ایف پی کو بتایا کہ "مہنگائی مزید بڑھے گی۔”
ڈالر کی بڑھتی ہوئی مانگ کے نتیجے میں پاکستان کو غیر ملکی کرنسیوں کی شدید قلت کا سامنا ہے۔
بینکوں کی جانب سے سپلائرز کی ڈالر میں لین دین کی ضمانت دینے سے انکار کے بعد صنعت، کھانے پینے کی اشیاء اور طبی آلات کے لیے درکار خام مال سے لدے ہزاروں کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پر پھنس گئے۔
لاگت میں کمی کے اقدام کے نتیجے میں اس ہفتے پاکستان کو بھی ملک بھر میں بجلی کی بندش کا سامنا کرنا پڑا، جس سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کو فی یونٹ 70 ملین ڈالر لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔
ایک ہی دن میں ڈالر کی قدر میں بڑے اضافے کے ساتھ ملکی قرضوں میں بھی کھربوں روپے کا اضافہ ہو گیا، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ایک ہی روز قرضوں کا حجم 240 ارب روپے بڑھ گیا ہے۔
واضح رہے کہ ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے ڈالر کو آزاد کرکے مارکیٹ فورسز پر چھوڑنے کے فیصلے سے ڈالر کی قدر میں یک دم بڑا اضافہ ہوگیا۔
کرنسی کی دونوں مارکیٹوں میں امریکی کرنسی نے اونچی اڑان بھرلی۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر نے لمبی چھلانگ لگائی اور ڈالر کی قدر 12 روپے کے اضافے سے 255روپے کی سطح پر آگئی۔ انٹربینک میں بھی ڈالر کی قدر 24.39 روپے کے اضافے سے 255.28 روپے کی سطح پر آگئی۔ مارکیٹ میں ڈالر کی رسد نہ ہونے کی وجہ سے اس بات کا پہلے ہی امکان تھا کہ ڈالر کے اوپن ریٹ 250 روپے کی سطح سے اوپر چلے جائیں گے۔
زرمبادلہ بحران کے سبب جولائی سے ڈالر کے مقابلے میں روپیہ پر مستقل دبا کا شکار ہے جس پر قابو پانے کی غرض سے ایکس چینج کمپنیوں نے ازخود ڈالر کی قدر کو منجمد کرتے ہوئے معمولی نوعیت کا اضافہ کرتے رہے لیکن اس کیپ کے نتیجے میں گرے مارکیٹ وجود میں آئی جہاں ڈالر وافر مقدار میں تو دستیاب تھے لیکن اس مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت قانونی اوپن مارکیٹ کی نسبت 15 سے 20روپے زائد ہوگئی تھی۔
ڈالر کے نہ صرف طلبگاروں بلکہ فروخت کنندگان نے بھی زائد قیمت حاصل کرنے کے لیے اسی گرے مارکیٹ کا رخ کرلیا تھا جس نے اوپن کرنسی مارکیٹ کی سرگرمیوں کو متاثر کیا جہاں ڈالر کے طلبگاروں کی جانب سے ڈیمانڈ تو نظر آرہی تھی لیکن فروخت کنندگان اوپن مارکیٹ کا رخ نہیں کررہے تھے۔
اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ایکس چینج کمپنیوں نے گزشتہ شب اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر کو آزاد کرتے ہوئے فری مارکیٹ میکینزم پالیسی اختیار کرلی۔
ذرائع کا کہناہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی رسد نہ ہونے کی وجہ سے اوپن ریٹ بتدریج بڑھنے کے امکانات ہیں۔ اس ضمن میں ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چئیرمین ملک بوستان نے بتایا کہ ڈالر کی عدم دستیابی کے سبب ایکسچینج کمپنیوں نے بدستور ڈالر کی قدر کو آزاد رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ڈالر کی سپلائی نہیں ہے لہٰذا ہم اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی اڑان روکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک ایکس چینج کمپنیوں کے توسط سے آنے والی ترسیلات ذر کا 20فیصد حصہ فراہم کرے جو فی الوقت معطل ہے اور اسی طرح کمرشل بینکس بھی ایکس چینج کمپنیوں کی جانب سے ایکسپورٹ ہونے والی مختلف کرنسیوں کے عوض درآمد شدہ ڈالرز بھی فراہم نہیں کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کے صرف خریدار ہی ہیں جبکہ فروخت کنندگان غائب ہیں ان حالات میں ایکس چینج کمپنیاں کہاں سے ڈالر حاصل کرکے اپنے صارفین کو فراہم کریں۔