کویت اردو نیوز،2اگست: سعودی عرب کے شہر جدہ میں حال ہی میں ہونے والے ایک فیشن شو میں منتظمین نے ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے ماڈلز کے بجائے ملبوسات کی نمائش کرنے کی کوشش کی۔
تاہم، یہ خیال منصوبہ بندی کے مطابق نہیں چلا، اور اس کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بہت سارے لطیفے اور تنقید ہوئی۔
لوگوں نے تیرتے لباس کا موازنہ بھوتوں سے کیا اور محسوس کیا کہ اس سے سعودی عرب میں خواتین کے بارے میں منفی پیغام گیا ہے۔
تقریب کے منتظم علی نبیل اکبر نے ڈرون کے استعمال کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اختراعی آئیڈیا ہے، خاص طور پر ماہ رمضان کے لیے، کیونکہ انہوں نے اسے خلیج فارس کے کسی ملک میں اسے اپنی نوعیت کا پہلا فیشن شو بنانے کے لیے سخت محنت کی۔
سعودی عرب میں اس بارے میں سخت قوانین ہیں کہ خواتین کو کس طرح کا لباس پہننا چاہیے، جن میں عبایہ اور سر ڈھانپنے کی اکثر ضرورت ہوتی ہے۔ جب کہ جدہ دیگر مقامات کے مقابلے میں زیادہ اوپن ہے، ملک ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔
خواتین کے لیے کچھ پابندیوں میں نرمی کی گئی ہے، جیسے انہیں گاڑی چلانے کی اجازت دینا اور کھیلوں اور فیشن میں ان کی شرکت کو فروغ دینا۔
ان تبدیلیوں کے باوجود سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے اب بھی تنقید جاری ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنوں کو چیلنجز کا سامنا ہے، اور مساوات کی طرف پیش رفت سست ہے۔
ریاض جیسے قدامت پسند شہروں میں، فیشن ایونٹس کو سخت قوانین اور محدود سامعین کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جدہ میں فیشن شو میں ڈرون کے استعمال نے روایتی اقدار اور ملک کو ماڈرن بنانے کی کوششوں کے درمیان جاری جدوجہد کو اجاگر کیا۔ اس تخلیقی خیال کو متاثر کرنے کی کوشش نے سعودی عرب میں خواتین کے حقوق اور سماجی تبدیلی سے متعلق پیچیدہ مسائل کی طرف توجہ دلائی۔