کویت اردو نیوز 26 نومبر: جنوبی افریقہ میں کوویڈ19 کی ایک اور نئی قسم کا انکشاف، انفیکشن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے: ماہر امراض ڈاکٹر تولیو ڈی اولیویرا
تفصیلات کے مطابق جنوبی افریقہ میں سائنس دانوں نے کوویڈ19 کی ایک اور نئی قسم کاسراغ لگایا ہے۔یہ متعدد تبدیلیوں اورتغیّرات کی حامل ہے اور اس سے انفیکشن میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ متعدی امراض کے ماہر ڈاکٹر تولیو ڈی اولیویرا نے جمعرات کو ہنگامی طورپر بلائی گئی نیوزکانفرنس میں کہا کہ ’’بدقسمتی سے ہم نے ایک نئی شکل کاسراغ لگایا ہے اور یہ جنوبی افریقہ میں تشویش کی ایک وجہ ہے‘‘۔ انہوں نے بتایاکہ اس قسم کا سائنسی نسب نمبر بی 1.1.529 ہے۔ اس قسم میں بہت زیادہ تبدیلیاں ہیں اور بدقسمتی سے اس سے انفیکشن میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ
جنوبی افریقہ سے بوٹسوانا اور ہانگ کانگ سے لوٹنے والے مسافروں میں بھی اس قسم کے وائرس کا پتا چلا ہے۔ وزیر صحت جو فاہلہ کے بہ قول یہ قسم ’’سنگین تشویش‘‘کی حامل ہے اور رپورٹ کیے گئے کیسز میں ’’تیزی سے‘‘ اضافے کا ایک سبب یہی قسم ہے جس سے یہ ’’ایک بڑا خطرہ‘‘ بن گئی ہے۔ بدھ کوکرونا وائرس کے تشخیص شدہ کیسوں کی تعداد 1200 سے زیادہ ہوگئی تھی جبکہ
اس ماہ کے اوائل میں صرف 100 کے لگ بھگ کیس ریکارڈ کیے تھے۔ یاد رہے کہ کرسمس اور دوسرے تہواروں کے موسم سے قبل سفری سرگرمیوں میں اضافے کے سبب حکام نے دسمبر کے وسط سے جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی چوتھی لہر آنے کی پیشین گوئی کی تھی۔ حکومت کے زیر انتظام نیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے وبائی امراض (این آئی سی ڈی) نے کہا ہے کہ جینومک سیکوئنسنگ کے بعد ملک میں بی 1.1.529 قسم کے 22 مثبت کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ اس نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ ملک کے تین صوبوں بشمول گوٹینگ میں اس نئی قسم کے کیسوں کا پتا چلا ہے اور اس کے ٹیسٹوں کی مثبت شرح میں ’’تیزی سے اضافہ‘‘ہو رہا ہے۔ملک کے دوبڑے شہرجوہانسبرگ اور پریٹوریا بھی اس میں شامل ہیں۔
این آئی سی ڈی نے بتایا کہ حال ہی میں دارالحکومت پریٹوریا کے ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں بڑی تعداد میں اس وائرس کے پھیلنے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ گذشتہ سال جنوبی افریقہ نے بھی وائرس کے بِیٹا متغیّر کا سراغ لگایا تھا حالانکہ اب تک اس کے ہاں ڈیلٹا قسم کے کیسوں کی تشخیص کا پتا چلا ہے اور وائرس کی یہ قسم بھارت میں پھیلی تھی۔ سائنس دانوں نے بتایا کہ
نئی بی 1.1.529 قسم میں کم سے کم 10 تبدیلیاں ہیں جبکہ ڈیلٹا کے لیے دو یا بِیٹا کے لیے تین ہیں۔محقق رچرڈ لیسلز کا کہنا ہے کہ ہمارے لیے خدشے کا سبب یہ چیز ہےکہ وائرس کی یہ قسم نہ صرف تیزی سے منتقل ہوتی ہے اور مؤثر طریقے سے پھیلتی ہے بلکہ یہ مدافعتی نظام کے کچھ حصوں کے آس پاس جانے کے قابل بھی ہوسکتا ہے۔ اب تک یہ شکل خاص طور پرنوجوانوں میں پھیلتی دیکھی گئی ہے لیکن لیسلز نے کہا کہ آنے والے دن اور ہفتے اس قسم کی شدت کا تعیّن کرنے میں اہم ثابت ہوں گے۔
ایک اور سائنس دان پینی مور کہتی ہیں کہ وائرس کی اس قسم کوغیرجانبدار کرنا یا ناکارہ بنانا اس قسم میں موجود تغیّرات کی تعداد کی وجہ سے ایک پیچیدہ عمل ہے نیز اس قسم میں بہت سی تبدیلیاں ہیں جن سے ہم ابھی واقف نہیں ہیں۔ براعظم افریقہ میں اس ملک میں کرونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسوں کی تشخیص ہوئی ہے اور اب تک تقریباً ساڑھے انتیس لاکھ کیس ریکارڈ کیے گئے ہیں جن میں سے 89,657 جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
جنوبی افریقہ میں ویکسین لگانے کی مہم کے سست آغاز کے بعدتقریباً 41 فی صد بالغوں نے کم سے کم ایک خوراک حاصل کی ہے جبکہ 35 فی صد کو مکمل طور پر ویکسین لگائی جا چکی ہے۔