کویت اردو نیوز 06 جنوری: مغربی افغانستان کے صوبہ ہرات میں طالبان حکام نے نئے قوانین نافذ کیے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ ” کپڑوں کی دکانوں میں رکھے گئے خواتین کے پتلوں (مجسموں) کے سروں کو ہٹا دیا جائے کیونکہ یہ اسلام سے متصادم ہیں”۔ کنٹون کمیشن برائے فروغِ نیکی اور برائی کی روک تھام کے اہلکار عزیز رحمان نے جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ "یہ بت ہیں اور ان کا خاتمہ ضروری ہے”۔
اپنی طرف سے ہرات میں کاریگروں اور دکانوں کے مالکان کے ایک چیمبر کے سربراہ عبدالودود فی زادہ نے کہا کہ علاقے کے دکانداروں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ پتلے بت نہیں ہیں بلکہ صرف فروخت کے لیے کپڑوں کی نمائش کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان کی کوششیں عہدیداروں کو قائل کرنے میں ناکام رہیں۔
فی زادہ نے کہا کہ "انہوں نے ہر نمائشی مجسمے پر 80 سے 120 ڈالر کے درمیان خرچہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مجسمے تمام مسلم ممالک کے اسٹورز میں دیکھے جا سکتے ہیں”۔
ایک کپڑے کی دکان کے مالک سید نذیر سعادت نے کہا کہ طالبان کے اقتدار میں واپسی کے بعد سے ان کا کاروبار پہلے ہی مشکلات کا شکار ہے جبکہ انہیں طالبان کی جانب سے لگائی جانے قالی مزید نئی پابندیوں کا خدشہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "ہم پتلوں کے بغیر فیشن نہیں کر سکتے۔ میں اس شعبے کو فوری نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ میں نے اس میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔” یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلی ایک ویڈیو کلپ میں دکان کے مالکان کو پتلوں کے سروں کو ہٹاتے ہوئے دکھایا گیا ہے جبکہ طالبان نے پہلے ہی عوامی زندگی کے بیشتر پہلوؤں پر وسیع پیمانے پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔