کویت اردو نیوز 20 فروری: رجب کی ایک بڑی فضلیت یہ ہے کہ اس ماہ مبارک میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ و سلم کو معراج کی رات فرضیت نماز کا حکم دیا گیا۔
بعثت کے گیارہویں سال 27 رجب المرجب بروز پیر کی نوربھری رات پیکر انوار، تمام نبیوں کے سردار خاتم النبیین محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ و سلم براق پر سدرۃ المنتہیٰ اور وہاں سے مقام بالا پر رونق افروز ہوئے ، جہاں جگہ تھی نہ زمانہ، بس اسے لامکاں کہا جاتا ہے۔
یہاں اﷲ ربّ العزت نے اپنے پیارے محبوب کو وہ قربِ خاص عطا فرمایا جو کہ نہ کسی کو ملا ہے نہ ملے گا۔ اور صرف نماز ہی دین اسلام کا ایک ایسا عظیم رُکن ہے جسکی فرضیت کا اعلان زمین پر نہیں بلکہ ساتوں آسمانوں کے اوپر بلند واعلیٰ مقام پر معراج کی رات ہوا، نیز
اس کا حکم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم تک نہیں پہنچا، بلکہ اﷲ تعالیٰ نے فرضیت ِ نماز کا تحفہ بذاتِ خود اپنے حبیب محمد صلی اﷲ علیہ و سلم کو عطاء فرمایا۔
قرآن مجید فرقان حمید اور احادیث مبارکہ صلی اﷲ علیہ و سلم میں نماز کی مسلمہ اہمیت وفضیلت کو کثرت سے ذکر کیا گیا ہے جن میں نماز کو قائم کرنے پر بڑے بڑے وعدے اور ضائع کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔نماز، ایمان کے بعد اسلام کا اہم ترین رُکن ہے قرآن وحدیث میں اساہم اور بنیادی فریضہ کی ادائیگی کی تاکید کو کثرت سے بیان کیا گیا ہے۔
صرف قرآنِ پاک میں تقریباً سات سو مرتبہ، کہیں اشارۃ ً اور کہیں صراحۃً مختلف عنوانات سے نماز کا ذکر ملتا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بارے میں قرآن کریم کی سورۂ العنکبوت کی آیت نمبر ۴۵ میں اﷲ ربّ العزت فرماتے ہیں ’’ جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کیجئے، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘
نماز میں اﷲ تعالیٰ نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے مگر ضروری ہے کہ اس پرپابندی سے عمل کیا جائے اور نماز کو اُن شرائط وآداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی قبولیت کے لئے ضروری ہیں۔
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ فلاں شخص راتوں کو نماز پڑھتا ہے مگر دن میں چوری کرتا ہے تو نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ُاس کی نماز عنقریب اُس کو اس برے کام سے روک دے گی۔
(مسند احمد) ‘‘ سورۂ البقرۃ کی آیت نمبر ۱۵۳ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو، بیشک اﷲ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ جب بھی کوئی پریشانی یا مصیبت سامنے آئے تو مسلمان کو چاہئے کہ وہ اُس پر صبر کرے اور نماز کا خاص اہتمام کرکے اﷲ تعالیٰ سے تعلق قائم کرے۔
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم بھی ہر پریشانی کے وقت نماز کی طرف متوجہ ہوتے تھے جیسا کہ حدیث میں ہے حضرت حذیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کو جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا، آپ فوراً نماز کا اہتمام فرماتے۔
(ابو داود ومسند احمد) نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم پانچ فرض نماز وں کے علاوہ نماز تہجد، نماز اشراق، نماز چاشت، تحیۃ الوضوء اور تحیۃ المسجد کا بھی اہتمام فرماتے، اور پھر خاص خاص مواقع پر اپنے ربّ کے حضور توبہ واستغفار کے لئے نماز ہی کو ذریعہ بناتے، سورج گرہن یا چاند گرہن ہوتا تو مسجد تشریف لے جاتے۔ زلزلہ، آندھی یا طوفان حتیٰ کہ تیز ہوا بھی چلتی تو مسجد تشریف لے جاکر نماز میں مشغول ہوجاتے۔
فاقہ کی نوبت آتی یا کوئی دوسری پریشانی یا تکلیف پہنچتی تو مسجد تشریف لے جاتے۔ سفر سے واپسی ہوتی تو پہلے مسجد تشریف لے جاکر نماز ادا کرتے۔ اس لئے ہمیں بھی چاہئے کہ نماز کا خاص اہتمام کریں۔ اور اگر کوئی پریشانی یا مصیبت آئے تو نماز کی ادائیگی اور صبر کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ سے مدد مانگیں۔
سورۂ المائدہ کی آیت ۱۲میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اگر تم نماز قائم رکھوگے اور زکواۃ دیتے رہوگے۔ ‘‘ یعنی نماز کی پابندی کرنے سے بندہ اﷲ تعالیٰ کے بہت زیادہ قریب ہو جاتا ہے۔