کویت اردو نیوز 30 اکتوبر: 10 ماہ کے دوران 13000 غیر ملکیوں کو ملک بدر کردیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق آبادیاتی اصلاحات اور ملک کو رہائشی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں اور مجرموں سے پاک کرنے کے حکومتی منصوبے کے مطابق سیکیورٹی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ 2020 کے آغاز سے اب تک کل مختلف قومیتوں کے 13،000 افراد کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔ وزارت داخلہ کے انڈر سیکرٹری لیفٹیننٹ جنرل اسامام النہم کے فیصلے کے ذریعہ ان میں سے کچھ کو عوامی مفادات کے سبب ملک بدر کردیا گیا تھا۔
گذشتہ دو سال کے مقابلے میں جلاوطنوں کی تعداد کافی کم رہی ہے 2018 میں 34،000 اور 2019 میں 40،000 غیر ملکیوں کو جلاوطن کیا گیا تھا۔ کورونا وائرس کے بحران کی وجہ سے مختلف ممالک کے ہوائی اڈے بند ہونے کی وجہ سے ملک بدری میں کمی واقع ہوئی ہے۔ پچھلے 10 مہینوں میں 13،000 ملک بدری کے واقعات میں سے 90 فیصد جرم اور بدعنوانیوں کے عدالتی فیصلے اور 10 فیصد کیس صحت سے متعلق امور سے وابستہ تھے۔
اس وقت 900 مرد اور خواتین عمل درآمد کے مکمل ہونے کے منتظر ڈیپورٹیشن سیلز میں موجود ہیں۔ طریقہ کار مکمل کرنے کے بعد انہیں اپنے آبائی وطن جلاوطن کردیا جائے گا۔ ملک بدری کی شرح پچھلے سالوں کے مقابلے میں بہت زیادہ تیز رہی ہے جس کی بنیادی وجہ زیادہ تعداد میں بھیڑ سے بچنا اور سلاخوں کے پیچھے رہنے والوں کے لئے حفظان صحت کے اصولوں کی پیروی کرنا ہے۔
افریقی ممالک کے کچھ شہری اب تک اپنے ممالک کے ہوائی اڈوں کی بندش کی وجہ سے طویل عرصے سے تحویل میں ہیں اور کچھ ایسے مقدمات بھی ہیں جو ابھی تک کویتی عدلیہ کے سامنے زیر التوا ہیں جبکہ دیگر افراد پر مالی قرضوں کے لئے سفری پابندی عائد ہیں جو انہیں سفر سے پہلے ادا کرنا پڑیں گے۔
مزید پڑھیں: اقامہ اور لیبر قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن
سیکیورٹی مہموں کو روکنے کی بڑی وجہ ڈیپورٹیشن سیلز میں زیادہ بھیڑ سے بچنا ہے۔ انسانی سمگلنگ کے لئے رہائشی اقاموں کی تفتیش، مجرمانہ تفتیش کی معطلی سفری پابندی کی وجہ سے ہے اور یہ پابندی کویت نے خود عائد کی ہے اور اس کے سبب غیر ملکیوں کو اپنے ملکوں کو جلاوطنی کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
ذرائع نے اشارہ کیا ہے کہ وزارت داخلہ میں متعلقہ محکموں کو سخت ہدایات جاری کی گئیں ہیں کہ وہ کسی قسم کی خلاف ورزی یا قانون شکنی کو برداشت نہ کریں اور کسی بھی معاملے میں ملوث ہر فرد کو بغیر کسی شکایت کے متعلقہ حکام کے پاس بھیجیں۔
جو لوگ قید میں ہیں اور ان پر قرض بھی ہے وہ کہاں سے قرض ادا کریں اور پھر ڈیپورٹ ہوں ؟ اسطرح تو جیل میں ہی زندگی گزار دیں گے ۔ کیا اسکا کوئی حل نہیں اس طرح تو اور بھی کئی لوگ ہیں بلکہ زیادہ قیدی تو عدم ادائیگی کی وجہ سے ہی سنزائیں کاٹ رہے ہیں اور اس صورت میں جب کام ہی نہیں تو قرض کہاں سے ادا کریں گے اور اب تو یہاں کے باشندے راہ خدا میں بھی ہم لوگوں پر ترس نہیں کھاتے جو کہ اللہ کے لئے ادائیگی کر کے مدد کر دیں