کویت اردو نیوز : موسمیاتی تبدیلی کے ہماری زمین پر بہت سے نقصان دہ اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور سائنسدانوں نے ایک اور حیران کن اثر کا انکشاف کیا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں آرکٹک خطے کی برف کی سطح میں چھپے ہزاروں سال پرانے وائرس دوبارہ زندہ ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ زمین کی گرم آب و ہوا کے نتیجے میں، آرکٹک کی منجمد سطح کے نیچے رہنے والے وائرس پھیل سکتے ہیں اور ایک نئی عالمی وبا کا باعث بن سکتے ہیں ، سائنسدانوں نے انہیں زومبی وائرس کہا ہے۔
ایک مردہ مخلوق جو دوبارہ زندہ ہو گئی ہو اسے زومبی کہا جاتا ہے اور آپ نے اس کے بارے میں خوفناک فلمیں ضرور دیکھی ہوں گی۔
فرانس میں Aix-Marseille University School of Medicine کے سائنس دان Jean-Michel Claverie نے کہا کہ عالمی وبا اس وقت ان بیماریوں پر مرکوز ہے جو جنوبی علاقوں میں ابھرتی ہیں اور شمال میں پھیلتی ہیں۔
اس کے برعکس، اس خطرے پر بہت کم توجہ دی جا رہی ہے جو شمالی کونوں سے ابھر کر جنوب کی طرف سفر کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘مجھے یقین ہے کہ آرکٹک کی سطح کے نیچے چھپے ہوئے وائرس انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایک نئی عالمی وبا کا باعث بن سکتے ہیں’۔
نیدرلینڈز کے ایراسمس میڈیکل سینٹر کے ماہر وائرولوجسٹ ماریون کوپ مینز بھی ایسا ہی ماننا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ "ہمیں نہیں معلوم کہ آرکٹک کی سطح کے نیچے وائرس کیسے موجود ہیں، لیکن ہمارے خیال میں ایک حقیقی خطرہ ہے کہ ان میں سے ایک عالمی وبا بن سکتا ہے۔”
2014 میں، جین مشیل کلیوری کی قیادت میں ایک تحقیقی ٹیم سائبیرین گلیشیئرز کی سطح کے نیچے سے غیر فعال وائرس کو بیدار کرنے میں کامیاب ہوئی۔
اس حوالے سے تحقیق جاری ہے اور 2023 میں کچھ نتائج سامنے آئے تھے جس میں سائبیریا کے 7 مقامات پر برف کی سطح کے نیچے مختلف وائرسز کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا اور ثابت کیا گیا تھا کہ یہ وائرس اب بھی خلیات کو متاثر کرسکتے ہیں۔ ان میں سے ایک وائرس 48,500 سال پرانا تھا۔
فرانسیسی سائنسدان کا کہنا تھا کہ ہم نے جو وائرس جمع کیے ہیں وہ فی الحال انسانوں کے لیے خطرہ نہیں ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ برف کے نیچے جمے ہوئے دوسرے وائرس انسانوں کو بیمار نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے وہاں وائرس کے جینیاتی نشانات کی نشاندہی کی ہے جو انسانوں میں بیماری پھیلا سکتے ہیں۔
سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ شمالی نصف کرہ کا 20 فیصد حصہ ہزاروں یا لاکھوں سالوں سے برف سے ڈھکا ہوا ہے۔
Jean-Michel Claverie کے مطابق، ‘بنیادی بات یہ ہے کہ ایسی برفیلی جگہوں کا نچلا حصہ سرد، تاریک اور آکسیجن سے محروم ہے، جو کہ حیاتیاتی مادے کو محفوظ رکھنے کے لیے بہترین ہے، مثال کے طور پر اگر آپ وہاں دہی ڈالیں گے تو یہ جم جائے گا۔ یہ 50,000 سال بعد بھی کھانے کے قابل رہے گا۔
لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ان خطوں کا ماحول بھی تبدیل ہو رہا ہے۔
کینیڈا، الاسکا اور سائبیریا جیسی جگہوں پر برف کے اوپری حصے تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
موسمیاتی ماہرین کے مطابق ان خطوں کا درجہ حرارت عالمی درجہ حرارت میں اوسط اضافے سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
Jean-Michel Claverie نے کہا کہ برف کے پگھلنے سے فوری طور پر کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن یہ خطرہ بڑھے گا کیونکہ آرکٹک سمندری برف پگھلنے سے سائبیریا میں شپنگ، ٹریفک اور صنعتی سرگرمیاں اور کان کنی میں اضافہ ہوگا۔ کان کنی کے لیے بڑے سوراخ کیے جائیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان سرگرمیوں سے بڑے پیمانے پر جراثیم نکلیں گے اور وہاں موجود لوگوں کو متاثر کریں گے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ان خطوں میں ایسے وائرس ہوسکتے ہیں جو لاکھوں یا کروڑوں سال پرانے ہیں اور ہمارا مدافعتی نظام ان میں سے کچھ جراثیم کو کنٹرول کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک خیال یہ ہے کہ کوئی نامعلوم وائرس دوبارہ ابھر سکتا ہے لیکن فی الحال خطرہ بہت کم ہے۔
لیکن اس خطرے کو ذہن میں رکھتے ہوئے سائنس دان آرکٹک خطے کی نگرانی کر رہے ہیں اور وہاں قرنطینہ مراکز قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔