وہ ایک مشہورمقولہ ہے نہ کہ ”خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے یا پھر کہتے ہیں کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا”۔ یہی حال پاکستانی معاشرے کے ان چند عناصرکا بھی ہے جو کہ دوسروں کی اندھی تقلید میں لگے ہوئے ہیں۔
بسنت ہو ویلینٹائن ڈے یا پھر ہیپی نیو ائیر یہ وہ دن اور تہوار ہیں کہ جن کی تاریخی حیثیت نہ تو پاکستانی ہے اور نہ ہی اسلامی۔ پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے منایا جانے والا ایک دن آٹھ مارچ بھی ہے جس کی بھی تاریخ امریکہ سے جا ملتی ہے۔ مارچ 1907 میں امریکی شہر نیو یارک میں لباس سازی کی صنعت سے وابستہ خواتین نے مردوں کے مساوی حقوق اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے غرض سے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جس کی پاداش میں انہیں پولیس کی جانب سے ڈنڈوں اور لاٹھی چارج کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی طرح 1908 کو نیویارک میں ہی سوئی سازی کی صنعت سے تعلق رکھنے والی خواتین نے اپنے حقوق کے لیے ایسا ہی
ایک مظاہرہ کیا مگر پولیس کی جوابی کاروائی نے ان خواتین کی ایک نہ چلنے دی۔ اسی وقت سے دنیا بھر کی خواتین نے یہ دن عورت کے نام کرنے کی ٹھان لی۔ چلو یہ بات تو قابل تسلیم ہے کہ امریکہ سے شروع ہونے والی آزادی نسواں کا یہ دن ان عورتوں کے حقوق کی آواز تو ہےمگرپاکستانی معاشرے کی وہ لبرل خواتین جو ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا کی تصویر بنی بیٹھی ہیں کس آزادی کی بات کرتی ہیں وہ آزادی کہ جس میں عورت باپ کی عزت کرنا بھول جائے۔
شوہر کا تقدس پامال کرے، بھائی کے ساتھ احترام کا رشتہ غارت کر بیٹھے۔ اس کو یاد رہےتو صرف اور صرف اپنی ذات گزشتہ چند سالوں سے آٹھ مارچ کو ہونے والے عورت مارچ میں جس قسم کے پلے کارڈز اٹھائے جاتے ہیں اور ان پر جس طرح کے غلیظ سلوگن آویزاں کیے ہوتے ہیں ان سے تو شاید دنیا بھر میں یہی پیغام جاتا ہے کہ
پاکستان کی عورت انتہائی مظلوم ہے۔ بے چاری عورت گھر کی چار دیواری سے باہر بھی قدم نہیں رکھ پاتی اور اس کا محافظ کہلانے والا شوہر ہی اس کا سب سے بڑا دشمن ہے جس پر دنیا بھی شاید یہی سوچتی ہو گی کہ جس معاشرے میں عورت کی ہی کوئی عزت نہیں اور معاشرہ اپنے دیگر معاملات کیسے سنبھالے گا۔ شرم کرو مغربی ایجنڈے کو بڑھاوا دینے اور پاکستانی معاشرے کو بدنام کرنے والی چند عورتوں، تم کیوں بھول جاتی ہو کہ عورت کو آزادی دینے والا آٹھ مارچ کا یہ دن نہیں بلکہ عورت کو حقیقی آزادی تو آج سے چودہ سو سال پہلے اسلام دے چکا ہے مگر انہیں کچھ حدود کا پابند بھی بنایا۔ اسلام نے عورت کو غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزاد کر کہ ایسا شرف بخشا جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں۔ اسلام ہی وہ مذہب ہے کہ جس کی بدولت عورت کو زندہ زمین میں گاڑھے جانے سے خلاصی ملی۔ قرآن نے زمانہ جاہلیت کی قبیح عادت کو سورت نحل میں یوں بیان فرمایا
’’اور جب ان میں سے کسی کو بچی کی ولادت کی خبر دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ غصہ میں گھٹتا جاتا ہے۔ وہ (بزعم خویش) اس ’’بری خبر‘‘ کے عار کی وجہ سے قوم سے چھپتا پھرتا ہے۔ وہ (سوچتا ہے کہ) آیا اس کو ذلت کی حالت میں لیے پھرے یا زندہ زمین میں دبا دے۔ خبردار! کتنا برا خیال ہے جو وہ کرتے ہیں‘‘
القرآن، النحل، 16 : 58، 59
یہ اسلام ہی ہے کہ جس نےعورت کو نفقہ کے حق کا ضامن بنایا۔ عورت کے لیے بھی تعلیم کو اتنا ہی لازمی قرار دیا جتنا کہ مردوں کے لیے، اسے وراثت کا حصہ دار بنایا۔ بحیثیت ماں عورت کے قدموں تلے جنت رکھی۔ بحیثیت بیوی اپنے شوہر کی راحت کا باعث بنایا۔ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ معاشرے کے سبھی لوگ نیک یا فرشتہ صفت نہیں ہوتے اگر کسی عورت کا خاوند ظالم بن کر اس پر جبر یا پھر تشدد کرتا ہے تو اسلام نے عورت کو یہ حق نہیں دیا کہ ساری زندگی اس کی غلامی اور اس کا ظلم سہنے میں گزار دے بلکہ اسے خلع کا حق دیا کہ وہ ایسے ظالم شخص سے علیحدگی اختیار کر لے اورپھر عدت گزر جانے کے بعد دوبارہ اپنے لیے کسی اچھے جیون ساتھی کا انتخاب کر سکتی ہے تو مغربی ایجنڈے پر کام کرنے والی عورتوں سے صرف ایک سوال ہے کہ جب اسلام نے عورت کو اتنے اختیار دیے ہیں، عورت کو ہر طرح کی سہولت سے نوازا ہے تو پھر وہ عورت کو سڑکوں پر لا کر آخر کونسی آزادی دینا چاہتی ہیں مگر آج بھی پاکستانی معاشرے میں عورت کا کردار بلند ہے۔
فاطمہ جناح جنہوں نے آزادی کی تحریک میں اپنے بھائی کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کام کیا۔ اسی طرح بیگم رعنا لیاقت علی خان جیسے نام بھی ماضی کو دریچوں سے جھلکتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم موجودہ دور کی بات کریں تو دنیا کی پہلی مسلم خاتون وزیراعظم کا تعلق بھی پاکستان سے ہی ہے۔ بلقیس ایدھی جیسی بیوی ہو یا پھر پاکستان کی بہادر فائٹر پائلٹ مریم مختار جس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جام شہادت نوش کیا اور تاریخ میں اپنا نام ہمیشہ کے لیے امر کر دیا یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں کہ جنہوں نے اسی پاکستانی معاشرے میں رہتے ہوئے اپنا نام بلند کیا۔
میرا سوال آزادی مارچ کی علمبردار ان عورتوں سے ہے کہ جب ہمارے مذہب اور معاشرے نے عورت کو یہ عظیم الشان آزادی دے رکھی ہے تو وہ آخر کس قسم کی آزادی عورتوں کو دلوانا چاہتی ہیں۔ دنیاوی تعلیم اور اسی قسم کی تعلیم جو عورت کو نام نہاد آزادی کی جانب راغت کرتی ہو اس پر اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انسان کے ليے اس کا ثمرموت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے ليے علم و ہنر موت
تحریر: ردا اشرف