کویت اردو نیوز 12 اپریل: غیرملکیوں کو نکال دو، انہیں ان کے وطن واپس بھیج دو، یہ تمام آفات اور جرائم کا سبب ہیں، یہ چور و قاتل ہیں۔ یہ وہی ہیں جن کی وجہ سے
کویتی شہریوں کو ملازمت کے مواقع سے محروم کیا جاتا ہے۔ انہیں ہسپتالوں کی خدمات سے دور رکھیں تاکہ ہم اپنی ہوا میں سانس لے سکیں”۔تارکین وطن کے خلاف شکایات کی بھرمار اور غیر ملکیوں کے مسئلے کو حل کرنے کے طریقے بہت زیادہ ہیں۔ یہ وہ تبصرے ہیں جن میں واضح نسل پرستی جو اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں اپنا زہر پھیلا رہی ہے نے ہم میں سے بہت سے لوگوں کو اس بات پر قائل کر دیا ہے کہ تارکین وطن کویت کے مخالف، ریاست کے دشمن ہیں جنہیں کویت سے نکال دیا جانا چاہیے ورنہ ہماری زندگیاں جہنم بن جائیں گی۔ برسوں کے دوران نسل پرستی نے تارکین وطن کو کچل کر رکھ دیا ان میں سے
بہت سے لوگ ہمیشہ کے لیے کویت چھوڑ گئے۔ ہمارے ملک کی خدمت کرنے والی زیادہ تر صلاحیتیں اور تجربات، تعلیم، صحت، تعمیرات اور صفائی ستھرائی کے علاوہ درزی بھی غیرملکیوں کے ساتھ ہی چلے گئے، نتیجہ اب یہ کہ ہمیں اپنے لیے عید کی داشے سلانے کے لیے بھی کوئی درزی نہیں ملے گا۔
تارکین وطن اور ان کی اہلیتیں کویت سے ایسی جگہوں پر چلی گئیں جہاں سماجی ماحول پاکیزہ ہے، جہاں نسل پرستی اور نفرت کے زہریلے مادے غالب نہیں ہیں۔ ایک ایسا ماحول جو انہیں قوم کی تعمیر میں حصہ دار سمجھے۔ تارکین وطن غنڈہ گردی، بدتمیزی اور لامتناہی لعنت سے ایک ایسے ماحول کی طرف چلے گئے جو ان کی قدر کرتا ہے اور انہیں ان کے پسینے اور کوششوں کا صلہ دیتا ہے۔ ایک زمانے تھا جب کویت لوگوں کے دلوں کی منزل ہوا کرتا تھا اور اس میں روشن خیالوں، فنکاروں، ادیبوں، فقہا، اساتذہ، کاریگروں اور کارکنوں کی قابلیت کے دریا جمع ہوتے تھے جنہوں نے اس قوم کی تعمیر اور اس کو مستحکم کرنے میں
خلوص دل سے اپنا حصہ ڈالا اور اس طرح شہریوں اور تارکین وطن کے تعاون پر مبنی کوششوں سے کویت کو خلیج کے موتی کے طور پر جانا جانے لگا۔ اس وقت دل پاکیزہ تھے اور روحیں اعلیٰ درجے کی تھیں۔ نسل پرستی اور دوسروں کے اخراج کے سائے ہمارے سر پر نہیں منڈلاتے تھے لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے جس کی ہم قیمت ادا کر رہے ہیں۔
اب ہر کوئی قیمت ادا کر رہا ہے، نسل پرست اپنی نسل پرستی کی قیمت ادا کر رہے ہیں جو ان کے خون میں زہر کی طرح دوڑ رہی ہے۔ انہوں نے بے گناہ غیرملکیوں کو بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا جن کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ہمارے ملک میں رہنے کے خواہاں تھے۔ جو لوگ نسل پرست نہیں ہیں وہ بھی اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں کیونکہ وہ اس کے خلاف کھڑے نہیں ہوئے، مزاحمت نہیں کی اور ‘تارکین وطن کے فوبیا’ سے انکار نہیں کیا بلکہ ان میں سے بعض نے لبیک کہا اور خدا کے بندوں کو خدا کی سرزمین سے نکال کر اپنی آواز بلند کی۔
تو کیا ہوا؟ کیا صورتحال ٹھیک ہو گئی ہے؟ کیا ملک چھوڑنے والے تارکین وطن کو ان لوگوں سے بدل دیا گیا ہے جو تجربے، علم اور اخلاص میں ان تارکین وطن سے آگے نکل گئے؟ اس کے برعکس، مزدوروں کی اجرت بڑھ گئی ہے جبکہ بڑھئی، لوہار، پلمبر، یا ہنر مند مزدور تلاش کرنا سرخ پارے کی تلاش سے زیادہ مشکل ہو گیا ہے اور جیسا کہ تمام ہنر مند کارکنان اور کاریگر چلے گئے ان کی جگہ
کم اہل اور مہنگے لوگوں نے لے لی ہے یہاں تک کہ اساتذہ، ڈاکٹروں اور ججوں نے بھی آس پاس کے ممالک میں نئے مواقع تلاش کیے ہیں جہاں ان کے جذبات کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور ان کے کام کو سراہا جاتا ہے، اور کوئی ان پر ہر روز نقصان کا خنجر نہیں چلاتا جبکہ بہت سے غیر ملکی اپنے بہتر کے لئے کویت چھوڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
جب ہمیں ناقص معیار کے کام کے لیے زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے یا جب ہمیں اپنے نئے داشے سلائی کروانے کے لیے کوئی درزی نہیں مل پاتا ہے تو پھر ہمیں شکایت کرنے کا بھی کوئی حق نہیں ہے کیونکہ یہ ہمارے ہاتھوں کے کیے کا ہی نتیجہ ہے۔ جب ہم نے ہنر مند لوگوں کو بھرتی کیا تو ہم عیش و عشرت میں رہتے تھے لیکن جب ہم نے ان کے ساتھ برا سلوک کیا اور یہ نہیں چاہا کہ وہ ہمارے درمیان قابل قدر بھائیوں کی طرح رہیں اور ہم نسل پرستی کی راہ پر چل پڑے اور غیر ملکیوں کے حقوق کا دفاع نہیں کیا اور ہم نہیں جانتے تھے کہ ہمارے ملک کا مفاد کس میں ہے وہ بھلائی کے لیے چلے گئے۔
کیا عجب نہیں کہ کویت، انسانیت کا وہ ملک جس کے سفید ہاتھ زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلے ہوئے ہیں اور جو ان لوگوں کی مدد، تسلی اور زخموں پر مرہم رکھتا ہے جنہیں ہم ذاتی طور پر جانتے بھی نہیں اور وہ ہمیں جانتے بھی نہیں۔ یہ وہی ملک ہے جہاں بدسلوکی اور بے دخلی کے مطالبات ان لوگوں کے خلاف اٹھ رہے ہیں جو اس سرزمین پر
اس کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے آئے تھے۔ وہ لوگ جو کویت کی خوشی پر خوش ہوتے ہیں اور کویت کے غمگین ہونے پر غمگین ہوتے ہیں۔ تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟ آپ کیسے فیصلہ کرتے ہیں؟ لیکن اس طرح کی نفرت انگیز دھونس اور اس طرح کی نفرت انگیز خارجی بیان بازی کے ساتھ جب تارکین وطن ہمیں چھوڑ دیتے ہیں تو کوئی وجہ دلیل یا منطق نہیں مانگتے۔
نوٹ: لکھا گیا کالم سب سے پہلے 7 اپریل 2022 کو کویت کے مقامی عربی روزنامہ الجریدہ میں شائع کیا جا چکا ہے جس کا اردو ترجمہ کیا گیا ہے)