پاکستان میں سیلاب اور حکمرانوں کا کردار
پاکستان اس وقت کئی دہائیوں میں اپنے بدترین سیلاب کا تجربہ کر رہا ہے ۔ لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے محروم ہو چکے ہیں، جب کہ سینکڑوں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق 1100 سے زائد اموات ہوئی ہیں، جن میں سے ایک تہائی بچے ہیں ، جب کہ 1600 لوگ زخمی ہیں۔ 325,000 مکانات مکمل طور پر تباہ اور 733,000 مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق اس سیلاب سے تقریباً 33 ملین پاکستانی بے گھر اور متاثر ہوئے ہیں۔
وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان کا ایک تہائی حصہ سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جبکہ بلوچستان بھی نمایاں طور پر متاثر ہوا ہے۔ سندھ میں 1288 ملی میٹر بارش ہوئی ہے جب کہ ماہانہ اوسط بارش 46 ملی میٹر ہے۔ یہ پاکستان میں تین دہائیوں میں سب سے زیادہ بارشیں ہیں۔ بارش میں تقریباً 592 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ غیر معمولی گرمی کی لہریں ہوسکتی ہیں۔ اپریل اور مئی میں پاکستان کے اکثر میدانی علاقوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا تھا ۔ سیلاب کی ایک اور وجہ موسمیاتی تبدیلی کو سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ پاکستان عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا ایک فیصد سے بھی کم پیدا کرتا ہے، لیکن اس کا شمار ایسے 10 سرفہرست ممالک میں ہوتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔
بہت سے عوامل سیلاب میں حصہ ڈالتے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے گرم ماحول بہت زیادہ بارش کا امکان پیدا کرتا ہے۔ پاکستان میں قطبی خطوں سے باہر گلیشیئرز کی سب سے زیادہ تعداد بھی ہے۔ زیادہ درجہ حرارت پگھلنے والی برف سے زیادہ پانی کے بہاؤ کا باعث بنا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہاں دوسرے عوامل بھی ہیں جنہوں نے تباہی کے پیمانے میں حصہ ڈالا ہے۔ ان میں خاص طور پر حکومت کی نظر اندازی کے باعث جنگلات کی کٹائی، نیز 2010 میں آخری بڑے سیلاب سے سبق حاصل نہ کرتے ہوئے ، حکومت کی جانب سے زیر زمین نکاسی کے راستوں کو برقرار رکھنے اور نقل مکانی کے مناسب اور قبل از وقت انتظامات کرنے میں ناکامی نمایاں طور پر شامل ہے۔
ان سیلابوں کے بعد کے اثرات بھی شدید ہیں۔ اس نے پاکستان کو شدید مشکل حالات میں چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کو 10 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے جبکہ اس کی معیشت پہلے ہی بحران کا شکار ہے۔ فصلوں اور مویشیوں پر منفی اثرات پڑنے سے درآمدات میں اضافہ ہی ہوگا اور برآمدات میں مزید کمی آئے گی جو پاکستان کو مزید معاشی بحران کی طرف لے جائے گی۔ سیلاب کے مکمل اثرات سے پہلے ہی پاکستان میں مہنگائی 47 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
بھی پیش نہیں کی گئی۔ اور وہ اپنی اپنی سیاسی انا اور طوفان بد تمیزی میں اسی طرح مگن رہے جیسے سیلاب کے مسٔلہ سے پہلے مگن چلے آ رہے تھے۔ لہٰذا چاہے عمران ہوں یا نواز اور شہباز، ان سب نے یہ ثابت کیا کہ انہیں تو بس یہ سیاسی جنگ جیتنی ہے اور اقتدار کا حصول ہی وہ مقصد ہے جس کے گرد ان کی تمام تر جدوجہد گھومتی ہے جبکہ عوام کے مسائل سے انہیں نہ ہونے کی حد تک واسطہ ہے۔
آئیے غور کریں کہ مدینے میں جب قحط پڑا تو اس وقت مسلمانوں کے حکمران یعنی خلیفہ کاکیا کردار تھا۔ یہ قحط جو خشک سالی کے بعد پیدا ہوا، اس وقت حضرت عمر فاروق ؓ خلیفہ تھے۔ انہوں نے اس وقت کے کفار کو مدد کے لیے نہ پکارا بلکہ پوری امت اسلامیہ سے مدد مانگی ۔ اس وقت اسلامی ریاست اس قدر وسیع تھی کہ غیر متاثرہ علاقوں سے بھاری امداد پہنچی ۔ ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں نقل کیا ہے کہ عمر ؓ نے بصرہ میں ابو موسیٰ اشعری ؓ کو لکھا : ان یا غوثاہ لامۃ محمد یعنی” محمد ﷺ کی امت کی مدد کرو”۔ اور انہوں نے عمرو بن العاصؓ کو مصر میں لکھا کہ "امت محمد ﷺ کی مدد کرو۔” چنانچہ ان میں سے ہر ایک نے اناج اور ہر قسم کے کھانے پینے کی چیزوں سے لدا ہوا بہت بڑا قافلہ بھیجا”۔
لہٰذا ایک اسلامی ریاست اس قسم کے کسی بھی ملک گیر بحران کا مقابلہ اسلامی عقیدے کی بنیاد پر کرتی ہے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بھیجی گئی راہنمائی کی روشنی میں اسے حل کرتی ہے جس نے مسلمانوں کو ایک واحد امت بنا کر بھیجا ہے۔ اسی طرح وہ حرام پر نہیں بلکہ ضروریات پر خرچ کرتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہم نے دیکھا کہ موجودہ بحران کے دوران بھی پاکستان کے حکمران قرضوں پر سود ادا کر رہے ہیں، جو ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی کا تقریباً نصف ہے! جبکہ ایک اسلامی ریاست قرضوں پر سود ادا کرنے کی بجائے ریاستی ملکیت میں شامل بھاری صنعت سے اور توانائی اور معدنیات کی ریاستی نگرانی سے حاصل ہونے والی وافر آمدنی کو ان ذمہ داریوں پر خرچ کرتی ہے۔
اسی طرح اسلامی ریاست مقررہ شرعی محصولات سے فنڈز اکٹھے کرتی ہے جیسے تجارتی مال پر زکوٰۃ، زرعی زمینوں پر خراج اور توانائی اور معدنیات کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی وغیرہ۔ لیکن جہاں ان جیسے شرعی محصولات سے اکٹھے کیے جانے والے فنڈز ناکافی ہوں تورسول اللہ ﷺ کے اس حکم پر عمل کیا جاتا ہے :لا ضَررَ وَلا ضِرارَ یعنی” نہ نقصان پہنچانا ہے اور نہ ہی نقصان اٹھانا ہے”۔ اس صورتحال میں اگر لوگوں سے قرض لیے بغیر نقصان کو روکنا ممکن نہ ہو تو اس حکم کے تحت صاحب ثروت لوگوں سے قرض لیا جاتا ہے۔ پھر اسلامی ریاست کے حکمران یعنی خلیفہ کو مالداروں پر ان کی جمع شدہ اضافی دولت پر ٹیکس لگانے کا اختیار بھی حاصل ہوتا ہے، کیونکہ نقصان کو روکنا مجموعی طور پر امت پر فرض ہے، اور خلیفہ امت کے امور کا نگہبان ہے۔ لہٰذا خلیفہ ہنگامی حالات میں اس قسم کے اقدامات لے سکتا ہے۔
پھر یہی نہیں بلکہ خلیفہ پوری امت اسلامیہ کے وسائل کو متحرک کرتا ہے۔ مسلم دنیا کو انڈونیشیا سے مراکش تک ایک وسیع خلافت کے طور پر متحد کرتے ہوئے خلیفہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اسلامی ریاست کے دیگر ولایات یعنی صوبوں سے وسائل تیزی سے پہنچیں، بالکل ویسے جیسے خلیفہ عمر ؓ نے ہنگامی حالات میں زیر انتظام علاقوں (ولایات) سے مدد حاصل کی تھی۔
اس وقت امت اسلامیہ کے پاس انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک اجتماعی طور پر بے پناہ وسائل موجود ہیں۔ لیکن خلافت کے بغیر مسلمانوں کی زمینیں تقسیم ہو گئی ہیں ، حکمران صرف ٹوکن کے طور پر متاثرہ علاقوں کے دورے کرتے ہیں اور بیرونی ممالک سے مدد کی اپیلیں کرتے نظر آتے ہیں۔درحقیقت، ہمیں اس اور اس جیسی صورتحال سے پیدا ہونے والے تمام بحرانوں کے خاتمے کے لیے دوبارہ خلافت کے نظام کی ضرورت ہے۔
کالم نگار: غزالی فاروق