1947ء سے نومبر 2022ء پاکستان کی تاریخ ایسے سیاسی واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں متعدد سیاسی رہنماؤں پر قاتلانہ حملے ہوئے ہیں۔ ان حملوں میں کچھ سیاستدان خالق حقیقی سے جاملے اور کچھ بال بال بچے ہیں۔
اسی سلسلے کا ایک حملہ 3 نومبر 2022ء کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر ہوا۔ وزیر آباد میں اولڈ کچہری چوک پر لانگ مارچ میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان فائرنگ سے زخمی ہوئے جبکہ مجموعی طور پر اس جان لیوا حملے میں 13 افراد زخمی ہوئے اور تحریک انصاف کے ایک کارکن معظم گوندل جاں بحق ہوئے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ 1947ء کے بعد سے اب تک کئی نامور سیاسی شخصیات پر قاتلانہ حملے ہوئے ہیں۔ 16 اکتوبر 1951ء کو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ایک جلسہ عام کے دوران گولی مار کر شہید کر دیا گیا تھا جبکہ ان کے قاتل کو بھی موقع پر ہی ہلاک کر دیا گیا۔
ملکی سیاست کی ایک اور نامور شخصیت، سابق صدر اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو پاکستان کے جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں ایک متنازع ٹرائل کے بعد راولپنڈی میں پھانسی دی گئی۔ ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دینے کے 9 سال بعد جنرل ضیاالحق طیارے کے ایک حادثے میں شہید ہو گئے۔
چوہدری ظہور الٰہی کو 25 ستمبر 1981ء کو لاہور میں گولیوں کا نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔ چوہدری ظہور الٰہی ملک کے صف اول کے سیاسی رہنما اور ضیاالحق کی کابینہ میں وزیر محنت و افرادی قوت رہ چکے تھے۔
3 اکتوبر 1991ء کو خیبر پختونخوا کے سابق مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، سابق گورنر اور وزیراعلیٰ، جنرل فضل حق پشاور میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے قتل ہوئے۔
29 ستمبر 1993ء کو سابق وزیر اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کو میاں چنوں میں انتخابی مہم کے دوران فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔
سابق وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے بڑے صاحبزادے اور اس وقت کی وزیر اعظم بےنظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کو 20 ستمبر 1996ء کو کراچی میں ایک پولیس کارروائی میں سرعام قتل کر دیا گیا۔
سابق گورنر سندھ، سماجی شخصیت اور طبی محقق حکیم محمد سعید کو 17 اکتوبر 1998ء کو ایک حملے میں قتل کر دیا گیا تھا۔
3 جنوری 1999ء کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف قاتلانہ حملے میں بال بال بچے۔
سابق وزیر مملکت برائے امور خارجہ صادق خان کانجو کو جولائی 2001ء میں قتل کر دیا گیا۔
6 اکتوبر 2003ء کو سپاہ صحابہ کے سربراہ اور ممبر قومی اسمبلی مولانا اعظم طارق کو کشمیر ہائی وے اسلام آباد پر شہید کر دیا گیا۔
14 دسمبر 2003ء کو سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے قافلے پر راولپنڈی میں خود کش حملہ کیا گیا تاہم وہ حملے میں محفوظ رہے۔ 25 دسمبر کو ایک بار پھر ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تاہم وہ اس بار بھی معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔
30 جولائی 2004ء کو پاکستان کے نامزد وزیر اعظم شوکت عزیز پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ محفوظ رہے لیکن ان کے ساتھ موجود 6 افراد حملے میں ہلاک ہو گئے۔
18 اکتوبر 2007ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بینظیر بھٹو پر خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس آتے ہی قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ اس دوران دو دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں 180 سے زائد لوگوں کی اموات ہوئیں جبکہ 500 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ بینظیر بھٹو اس حملے میں محفوظ رہیں۔
27 دسمبر 2007ء بینظیر بھٹو کو خود کش حملہ آور نے قتل کر دیا۔ اس وقت بینظیر بھٹو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی ریلی سے خطاب کر کے واپس جا رہی تھیں، جب حملہ آور ان کی گاڑی کے قریب گیا، پہلے انہیں گولی ماری اور پھر اس کے بعد خودکش دھماکے سےخود کو اڑا لیا۔
2 اکتوبر 2008ء کو عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما اسفندیار ولی خان پر ولی باغ چارسدہ میں قاتلانہ حملہ ہوا لیکن وہ بال بال بچ گئے تھے۔
24 جولائی 2010ء کو خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کے اکلوتے بیٹے میاں راشد حسین کو ان کے دوست کے ہمراہ خان شیر گڑھی میں نامعلوم حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
4 جنوری 2011ء کو پنجاب گورنر سلمان تاثیر کو ان کے گارڈ نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ 2 مارچ 2011ء کو وفاقی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کو اسلام آباد میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمٰن کے قافلے پر 2011ء میں دو دنوں کے دوران دو حملے ہوئے۔ پہلا ضلع صوابی میں مولانا فضل الرحمٰن کے استقبالیہ جلوس پر ہوا، اس حملے میں سات افراد اللہ کو پیارے ہوئے۔ اس سے پہلے چارسدہ میں بھی مولانا فضل الرحمٰن کے قافلے پر اس وقت خود کش حملہ ہوا، اس حملے میں مولانا تو محفوظ رہے، تاہم پانچ پولیس اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
دسمبر 2012 میں خیبر پختونخوا کے سینیئر وزیر بشیر احمد بلور پشاور میں خودکش دھماکے میں قتل ہوئے۔ 13 جولائی 2018 کو بلوچستان کے نامور سیاستدان نواب سراج رئیسانی کو مستونگ میں انتخابی مہم کے دوران خودکش حملے میں قتل کر دیا گیا۔ وہ سابق صوبائی وزیر اعلیٰ میر اسلم رئیسانی کے بھائی تھے۔
جولائی 2018ء میں انتخابات سے 14 روز قبل اے این پی کے سینیئر لیڈر بیرسٹر ہارون بلور اور دیگر 13 افراد خودکش دھماکے میں ہلاک ہوئے تھے۔
24 جولائی 2018ء کو سابق صوبائی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما اکرام گنڈاپور ایک خودکش حملےمیں قتل ہو گئے۔
دلی دعا ہے کہ اللہ تعالی پاکستانی کلچر سے اس عدم برداشت کے رویے کو ختم فرمائے۔ اختلافات تو دنیا بھر میں تقریبا ہر ملک میں ہوتے ہیں لیکن اس کی بنا کسی کی جان لینا کہیں بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا، اور نہ ہی کسی مذہب میں اس کی اجازت ہے۔ سیاستدان، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ نے اگر پاکستان کو اس بحران سے نکالنے کی کوشش نہ کی تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔