اسلام کے چوتھے رکن صوم رمضان کی ادائیگی کے بعد ایک مومن اور مسلمان کے لئے سنت، مستحب اور افضل ہے، کہ اللہ کی رضا و خوشنودی اور اصلاح نفس وتزکیہ کے لئے شوال کے چھ روزوں کا رکھیں۔ جس کا خود رحمت اللعالمینﷺ نے اہتمام فرمایا، اور اپنے اصحاب وازواج مطہرات کو بھی رکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔
(1) شوال کی وجہ تسمیہ:
اسلامی سال کے دسویں مہینے کا نام شوال المکرم ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ ”شَول ”سے ماخوذ ہے جس کا معنی اونٹنی کا دُم اٹھانا (یعنی سفر اختیار کرنا) ہے۔ اس مہینہ میں عرب لوگ سیر و سیاحت اور شکار کھیلنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے تھے۔ اس لئے اس کا نام شوال رکھا گیا۔
(2) شوال میں رونما ہونے والے اہم تاریخی واقعات:
(1) اس مہینہ کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے، جس کو یوم الرحمۃ بھی کہتے ہیں۔ اس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے۔
(2) اسی روز اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کو شہد بنانے کا الہام کیا تھا۔
(3) اسی دن اللہ تعالیٰ نے جنت پیدا فرمائی۔
(4) اسی روز اللہ تبارک و تعالیٰ نے درختِ طوبیٰ پیدا کیا۔
(5) اسی دن کو اللہ عزوجل نے سیدنا حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وحی کے لئے منتخب فرمایا۔ اور
(6) اسی دن میں فرعون کے جادوگروں نے توبہ کی تھی۔ (فضائل ایام و الشہور ، صفحہ 443،غنیہ الطالبین صفحہ405، مکاشفۃ القلوب صفحہ693)
(7) اسی مہینہ کی چوتھی تاریخ کو سید العالمین رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نجران کے نصرانیوں کے ساتھ مباہلہ کےلئے نکلے تھے۔
(8) اسی ماہ کی پندرہویں تاریخ کو اُحد کی لڑائی ہوئی۔ جس میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ شہید ہوئے تھے۔
(9) اسی ماہ کی پچیس تاریخ سے آخرِ ماہ تک جتنے دن ہیں وہ قوم عاد کے لئے منحوس دن تھے جن میں اللہ جل شانہ، نے قوم عاد کو ہلاک فرمایا تھا۔ (فضائل ایام والشہور صفحہ 444، بحوالہ عجائب المخلوقات صفحہ 46)
(3) شوال کی فضیلت:
یہ مبارک مہینہ وہ ہے کہ جو حج کے مہینوں کا پہلا مہینہ ہے۔ (یعنی حج کی نیت سے آغاز ِسفر) اسے شَہْرُ الْفِطْر بھی کہتے ہیں اس کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے۔ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بخشش کا مژدہ سناتا ہے۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔
اِذَاکَانَ یَوْمُ عِیْدِہِمْ یَعْنِیْ یَوْمَ فِطْرِہِمْ بَاہـٰی بِہِمْ مَلَائِکَتَہ، فَقَالَ مَاجَزَآءُ اَجِیْرٍ وَفّٰی عَمَلَہ، قَالُوْرَبَّنَا جَزَآءُ ہ، اَنْ یُّوَفّٰی اَجْرُہ، قَالَ مَلَائِکَتِیْ عَبِیْدِیْ وَاِمَائِیْ قَضَوْ فَرِیْضَتِیْ عَلَیْہِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا یَعُجُّوْنَ اِلَی الدُّعَآءِ وَ عِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ وَکَرَمِیْ وَ عُلُوِّیْ وَارْتِفَاعِ مَکَانِیْ لَاُجِیْبَنَّہُمْ فَیَقُوْلُ ارْجِعُوْا قَدْغَفَرْتُ لَکُمْ وَ بدَّلْتُ سَیِّاٰتِکُمْ حَسَنَاتٍ قَالَ فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّہُمْ ۔ رواہ البیہقی فی شعب الایمان (مشکوٰۃ صفحہ ١٨٣)
ترجمہ: جب عید کا دن آتا ہے یعنی عید الفطر کا دن. تو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے کہ اس مزدور کی کیا مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو۔ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کی جزا یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے۔ اے میرے فرشتو! میرے بندوں اور بندیوں نے میرے فریضہ کو ادا کردیا ہے پھر وہ (عیدگاہ کی طرف) نکلے دعا کیلئے پکارتے ہوئے۔ اور مجھے اپنی عزت و جلال اور اکرام اور بلندی اور بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعا قبول کروں گا۔ پس فرماتا ہے اے میرے بندو! لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔ اور تمہاری برائیاں نیکیوں سے بدل دیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہوچکی ہوتی ہے۔
(4) روزے کی کی فضیلت:
روزے کی فضیلت واہمیت متعدد کتبِ احادیث میں موجود ہے ان میں وارد احادیث میں سے چند ایک صحیح احادیث بیان کی جاتی ہیں:
(1) باب الریان سے روزے داروں کو پکارا جائے گا:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ”ریان” کہا جاتا ہے، قیامت کے دن اس دروازے سے روزے دارداخل ہوں گے۔ ان کے علاوہ اس میں سے کوئی اندر نہیں جاسکے گا۔ پکارا جائے گا: روزے دار کہاں ہیں؟ وہ کھڑے ہوجائیں گے ان کے سوا کوئی اور اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا۔ جب یہ داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا پھر بعد میں کوئی بھی اس دروازے سے داخل نہ ہوگا”۔
(صحیح بخاری/1896 وصحیح مسلم/1192)
(2) ایک دن روزہ، چہرہ جہنم سے ستر سال دور:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ عزوجل کے راستہ میں ایک دن کاروزہ رکھتا ہے،اس دن کے بدلے میں اللہ اس کا چہرہ جہنم سے ستر سال (کی مسافت تک)دور کردے گا”۔
(صحیح بخاری/2685 وصحیح مسلم/1153)
(3) روزے دار جہنم سے کوسوں دور:
ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اللہ کے راستہ میں ایک دن کا روزہ رکھا تو اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان اتنی بڑی خندق (گڑھا) بنادے گا جتنا آسمان وزمین کے درمیان فاصلہ ہے”۔
(سنن ترمذی/9333، امام البانی نے حدیث کو حسن صحیح کہا ہے،السلسلة الصحیحة/563))
(4) روزہ جہنم سے ڈھال ہے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ جہنم سے ڈھال ہے، جس طرح لڑائی سے بچانے والی تمہاری ڈھال ہوتی ہے”۔
(مسند احمد/3879)
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض روزوں کے علاوہ نوافل روزے بھی مختلف اوقات میں رکھے ہیں اور اپنی امت کو نفل روزے رکھنے کی ترغیب دی ہے۔ زیر نظر تحریر میں صرف شوال کے چھ روزوں اوران کے فضائل کا ذکر ہے۔
(5) شوال کے چھ روزے:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَ تْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّال، کَانَ کَصِیَامِ الدَّھَر”۔
(صحیح مسلم/1164)
ترجمہ: ” جس نے رمضان کے (پورے)روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کے برابر ہے”۔
نیز فرمایا: ”جَعَلَ اللّٰہُ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا، فَشَہْر بِعَشْرَةِ أَشْہُرٍ، وَصِیَامُ سِتَّةِ أَیَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ تَمَامُ السَّنَةِ”۔
( صحیح ابن خزیمہ، صحیح الترغیب ح/997)
”اللہ تعالیٰ نیکی کو دس گنا بنادیتا ہے، پس ایک مہینہ روزہ رکھنا دس مہینے کے برابر ہوا، اور عید کے بعد چھ دن کے روزے سال کو پورا کر دیتے ہیں”۔
(6) کیا شوال کے چھ روزوں مسلسل رکھے جائیں؟
جواب: شوال کے چھ روزے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہیں، ان کو مسلسل اور متفرق دونوں طرح رکھنا جائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان روزوں کا مطلقاً ذکر فرمایا ہے اور اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ انہیں مسلسل رکھا جائے یا الگ الگ۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آپ کا فرمان ہے: ” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّال، کَانَ کَصِیَامِ الدَّھَر”۔
(صحیح مسلم/1164)
”جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو وہ اس طرح ہے جیسے سال بھر کے روزے رکھے ہوں”۔
(شیخ ابن بازرحمہ اللہ، فتاویٰ اسلامیہ/226)
(7) فرض قضا روزے پہلے رکھے جائیں یا شوال؟
جواب: مشروع یہ ہے کہ شوال کے چھ روزوں سے پہلے رمضان کے روزوں کی قضا دی جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَ تْبَعَہُ سِتًّا مِنْ شَوَّال”۔
(صحیح مسلم/1164)
جس نے رمضان کے (پورے) روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کے برابر ہے”۔
نیز فرمایا: ”جَعَلَ اللّٰہُ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِہَا، فَشَہْر بِعَشْرَةِ أَشْہُرٍ، وَصِیَامُ سِتَّةِ أَیَّامٍ بَعْدَ الْفِطْرِ تَمَامُ السَّنَةِ”۔
(صحیح ابن خزیمہ، صحیح الترغیب ح/997)
”اللہ تعالیٰ نیکی کو دس گنا بنادیتا ہے،پس ایک مہینہ روزہ رکھنا دس مہینے کے برابر ہوا، اور عید کے بعد چھ دن کے روزے سال کو پورا کردیتے ہیں”۔
(8) ایک اشکال اور اس کا جواب:
ایک آدمی کے ذمہ مسلسل دو ماہ کے روزوں کا کفارہ لازم ہے اور وہ شوال کے چھ روزے بھی رکھنا چاہتا ہے تو کیا اس کے لیے یہ روزے رکھنا جائز ہے؟
جواب: واجب یہ ہے کہ جلدی سے پہلے کفارہ کے روزے رکھے جائیں۔ کفارہ کے روزوں سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ روزے نفل ہیں اور کفارہ کے روزے فرض ہیں اور انہیں فورا رکھنا فرض ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ انہیں شوال کے چھ روزوں یا دیگر نفل روزوں سے پہلے رکھا جائے۔
(صحیح ابن خزیمہ، صحیح الترغیب ح/997)
اللہ تعالی ہمیں شوال کے یہ روزے پورے اہتمام کے ساتھ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین