کویت اردو نیوز 08 فروری: شمالی شام کے قصبے جندیرس میں رہائشیوں اور امدادی کارکنوں نے ملبے کے نیچے سے معجزانہ طور پر پیدا ہونے والی ایک بچی کو باہر نکا ل لیا جو کہ نال کے ذریعے اپنی ماں سے جڑی ہوئی تھی۔
پیر کے روز زلزلہ کے بعد گھر تباہ ہونے کے بعد ماں ملبے تلے دب گئی اور اسی دوران بچی کو پیدائش ہوگئی تاہم ماں کی موت واقع ہوگئی۔
نومولود بچی کو نکالا گیا تو وہ مسکین کے ساتھ ساتھ یتیم بھی ہو چکی تھی۔ اس کے والد کے ساتھ ساتھ خاندان کے تمام افراد فوت ہوچکے ہیں۔ اس کی والد عبد اللہ الملیحان، والدہ عفراء اور اس کے چار بہن بھائی اور اس کی پھوپھو بھی وفات پا گئیں۔ ان کے خاندان کے ایک رشتہ دار خلیل السوادی کو الفاظ سے دلاسہ دینا مشکل ہو رہا تھا جب انہوں نے جذباتی انداز میں اے ایف پی کو بتایا کہ ہم ابو ردینہ اور اس کے گھر والوں کو تلاش کر رہے تھے۔ سب سے پہلے ہم نے ام ردینہ کو پایا اور اس کے ساتھ ہی ابو ردینہ بھی تھے۔
انہوں نے مزید کہا ہم نے کھدائی کرتے وقت ایک آواز سنی۔ ہم نے ام ردینہ کی نال سے بچے کو ڈھونڈنے کے لیے مٹی صاف کی۔ ہم نے نال کاٹ دی اور میرا کزن بچی کو ہسپتال لے گیا۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو کلپ میں مردوں کا ایک گروپ تباہ شدہ عمارت کے ملبے کے اوپر دکھائی دے رہا ہے، ایک شخص پیلے رنگ کے بلڈوزر کے پیچھے دوڑتا ہے اور بچے کو برہنہ لے جا رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں خون سے ملی دھول نظر آ رہی ہے۔ کمزور جسم سے نال لٹکتی دکھائی دے رہی ہے۔
کم درجہ حرارت کے درمیان ویڈیو کے پس منظر میں ایک آدمی کی آواز بلند ہوتی ہے جس میں گاڑی کو ہسپتال لانے کا کہا جاتا ہے۔ ایک اور شخص ملبے کے اوپر سے بھاگتا ہے اور صفر کو چھونے والے کم درجہ حرارت کے درمیان میں بچی کو لپیٹنے کے لیے رنگین کمبل پھینک رہا ہے۔ ریسکیو اہلکار اور رہائشی کئی گھنٹوں کی تلاش اور تھوڑے وسائل کے ساتھ سخت محنت کے بعد خاندان کی لاشوں کو نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ شیر خوار بچی کو صوبہ حلب کے انتہائی شمال میں واقع ہمسایہ شہر عفرین کے ایک ہسپتال میں طبی امداد دی جا رہی ہے۔
لاشوں کو نکالنے کے بعد انہیں ان کے تباہ شدہ مکان سے ملحقہ مکان میں لے جایا گیا۔ سبز چادر پر چاروں بچوں کی لاشیں ڈھکی ہوئی تھیں اور ایک لڑکی کا چہرہ ٹوٹا ہوا تھا اور ملبے کی مٹی سے ڈھکا ہوا تھا، کمرے کے ایک طرف اس شخص، اس کی بہن اور اس کی بیوی کی لاشیں پڑی تھیں۔
السوادی نے افسوس کے ساتھ کہا یہ اس چھوٹی بچی کا خاندان ہے جو ملبے کے نیچے پیدا ہوئی تھی۔ اس نے ایک ایک کرکے سب کے نام لیے اور کہا ہم دیر الزور سے بے گھر ہیں۔ عبد اللہ میرا چچا زاد ہے اور میں اس کی بہن کا شوہر ہوں۔ اے ایف پی کے مطابق اس قصبے میں 50 سے زیادہ عمارتیں منہدم ہوئی ہیں۔
دوسری خبر میں شام میں جنگ کے شعلوں سے بچ نکل کر ترکیہ میں پہنچنے والے نوجوان کو وہاں پر بھی موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا پڑے گا۔
یہ ایک شامی لڑکے کی کہانی ہے جو یہ سوچ کر اپنے ملک کے جہنم زار سے نکلا تھا کہ یہاں پر موت کے جاری رقص سے بچنے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ وہ ہجرت کرکے ترکیہ کے شہر ہاتائے پہنچ گیا تاہم یہاں جس عمارت میں اسے رکھا گیا تھا وہ پیر 6 فروری کے زلزلہ میں گر کر تباہ ہوگئی۔ شامی نوجوان نے ملبے کے نیچے سے ویڈیو کلپ فلمایا اور احساسات بیان کردیئے۔ نوجوان کہتا سنائی دے رہا ہے کہ ’’ میں زندہ ہوں‘‘ ۔
نوجوان ویڈیو میں یہ بتاتا ہوا نظر آیا کہ اس کا احساس ناقابل بیان ہے۔ اس نے کہا کہ اس کا خاندان اور بہت سے دوسرے خاندان ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ اس نے بتایا کہ اسے ملبے کے درمیان عمارت کے گرنے سے لوگوں کے رونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
یاد رہے امدادی ٹیمیں ترکیہ اور شام میں آنے والے شدید زلزلے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی تلاش میں وقت کے ساتھ دوڑ رہی ہیں۔ زلزلہ میں اب تک 8 ہزار سے زائد افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوگئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد 20 ہزار تک پہنچنے کا بھی خدشہ ہے۔ ترکیہ اور شام میں آنے والے اس زلزلہ میں ہزاروں عمارتیں منہدم ہوگئی ہیں۔