کویت اردو نیوز ، 10 اکتوبر 2023: کیمبرج یونیورسٹی کے محققین زمین پر ایک ایسا خلائی مقناطیس بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو قابل تجدید ٹیکنالوجی کے لیے چین پر مغرب کا انحصار ختم کر سکے۔
محققین ٹیٹرانائٹ کو ‘خلائی مقناطیس’ کہتے ہیں جو توانائی کی صفائی کی ٹیکنالوجی میں انقلاب لا سکتا ہے۔ مقناطیس برقی گاڑیوں، ونڈ ملز اور فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے اہم سمجھی جانے والی دیگر اختراعات کے لیے ضروری ہیں۔
اس وقت استعمال ہونے والی زیادہ تر ٹیکنالوجی مقناطیس استعمال کرتی ہے جو عام طور پر ‘نایاب زمینی عناصر’ سے بنتی ہے۔ یہ عناصر زمین کے نچلے حصے میں بکھرے ہوئے ہیں اور انہیں اکٹھا کرنا مشکل ہے، جس کے لیے انتہائی گہری اور مہنگی کان کنی کی ضرورت ہوتی ہے۔
امریکی محکمہ توانائی کے 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق، چین نایاب زمین کی کان کنی کے تقریباً 58 فیصد اور مقناطیس کی پیداوار کے 92 فیصد کو کنٹرول کرتا ہے۔ جبکہ امریکہ عالمی سپلائی میں تقریباً 15 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔
کیمبرج کے پروفیسر لنزے گریر نے رپورٹ میں کہا کہ ماحولیاتی اثرات اور چین پر بھاری انحصار کے درمیان ایسے متبادل مواد کو تلاش کرنے کی فوری ضرورت ہے جس میں نایاب عناصر کی ضرورت نہ ہو۔
Tetratinite، سٹیل اور نکل کا ایک مرکب، جادوئی مقناطیس ہو سکتا ہے جو بہت سے مسائل کو حل کرتا ہے. لیکن یہ مواد لاکھوں سالوں میں شہابیوں پر بنتا ہے، اور سائنسدانوں کے پاس انہیں جمع کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی نہیں ہے۔
یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق سائنسدان لیبارٹری میں ٹیٹراٹینائٹ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس کمپاؤنڈ میں فاسفورس کا اضافہ ایک اہم پیش رفت ہے۔
فاسفورس لوہے اور نکل کے ساتھ رد عمل ظاہر کرتا ہے تاکہ ایک قطعی ایٹمک حرکت پیدا ہو جو خلا میں لاکھوں سال گزارے بغیر دھات کو ٹیٹراٹینائٹ مقناطیس میں بدل دیتی ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق، انہوں نے اس مرکب کو سانچے میں ڈال کر سیکنڈوں میں کامیابی سے ٹیٹرانائٹ بنا لیا۔