کویت اردو نیوز : ایلون مسک نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ ان کی کمپنی نیورالنک پہلی بار انسانی دماغ میں کمپیوٹر چپ لگانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
لیکن چینی سائنسدانوں نے اس سے بھی بہتر وائرلیس کمپیوٹر انٹرفیس تیار کیا ہے اور اسے انسانی دماغ میں لگانے کا دعویٰ کیا ہے۔
Tsinghua یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے اعلان کیا کہ ان کی تیار کردہ ڈیوائس کا تجربہ ایک انسانی مریض پر کیا گیا ہے جس کی حالت تیزی سے بہتر ہو رہی ہے۔
اس ڈیوائس کو گزشتہ سال اکتوبر میں انسانی طبی آزمائش کے دوران مریض کے دماغ میں لگایا گیا تھا۔
اس ڈیوائس کا نام نیورل الیکٹرانک اپرچیونٹی (NEO) ہے اور اس کی تنصیب کے بعد معذور مریض اپنے خیالات کے ذریعے اپنے ہاتھوں کو حرکت دینے کے قابل ہو گیا ہے۔
محققین کیمطابق انکی ڈیوائس نیورالنک کی چپ سے بہتر ہے کیوں کہ اس سےنیوران کو نقصان پہنچنےکا خطرہ نہیں ہے۔
واضح رہےکہ دماغی کمپیوٹر انٹرفیس دماغ کےاندر برقی سرگرمی اورکمپیوٹر جیسےبیرونی ڈیوائس کے درمیان براہ راست بات چیت کےقابل بناتا ہے۔
محققین کے مطابق ایسے آلات مکمل طور پر مفلوج افراد کو بات چیت کرنے اور صحت یاب ہونے میں مدد دیتے ہیں۔
چینی ماہرین کی جانب سے تیار کردہ یہ ڈیوائس تقریباً 2 سکوں کے سائز کی ہے اور اسے کھوپڑی میں لگایا گیا ہے۔
اس میں کوئی بیٹری نہیں ہتاہم ایک ہائی فریکوئنسی کیمرےکا استعمال کرتےہوئے قریبی فیلڈ وائرلیس پاورسےچارج کیا جاتا ہے۔
محققین نے کہا کہ ڈیوائس کو براہ راست نیورل ٹشو میں نہیں لگایا گیا تھا، لیکن اس کے الیکٹروڈز دماغ اور کھوپڑی کے درمیان کی جھلی میں لگائے گئے تھے۔
یہ الیکٹروڈز عصبی سگنلز کھوپڑی سے منسلک ایک بیرونی ریسیور کو بھیجتے ہیں، اور پھر ایک فون یا کمپیوٹر سگنلز کو ڈی کوڈ کرتا ہے۔
محققین کے مطابق، ہمارے سسٹم نے نیورالنک، برین گیٹ اور دیگر دماغی کمپیوٹر انٹرفیس بنانے والوں کے مقابلے میں ایک نئے انداز کا تجربہ کیا۔
یہ نظام 10 سال پہلے تیار کیا گیا تھا اور پھر اسے جانوروں پر آزمایا گیا تھا، جس کی منظوری کے ساتھ 2023 کے اوائل میں انسانی طبی آزمائشیں شروع کی جائیں گی۔
جس شخص کے دماغ میں نیا سسٹم لگایا گیا ہے وہ 14 سال قبل ٹریفک حادثے میں ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ لگنے کے بعد مکمل طور پر معذور ہو گیا تھا۔
ڈیوائس انسٹال ہونے کے 3 ماہ بعد وہ اپنے ہاتھ سے بوتل اٹھا سکتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ مشین لرننگ الگورتھم کی مدد سے مریض بہت جلد خود کھا پی سکے گا۔
ڈیوائس پر مزید تحقیقی کام کیا جائے گا جس کے بعد ماہرین اس کے عام استعمال کی منظوری حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔