کویت اردو نیوز 12 فروری: مسکان خان نامی ایک ہندوستانی مسلمان طالبہ جو اسکول کے اندر مسلم خواتین کے حجاب پہننے کے حق کو مسترد کرنے والے مذہبی انتشار پھیلانے والے لوگوں کے سامنے کھڑے ہونے کے بعد مزاحمت اور آزادی کی علامت بن چکی ہے۔
ہندوستانی ریاست کرناٹک کی جانب سے ایک فیصلہ جاری کیا گیا جس کی وجہ سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ اور مظاہروں کا آغاز ہوا ہے۔ طالبہ خان ایک ویڈیو کلپ جس میں وہ یونیورسٹی میں اسائنمنٹ جمع کرانے کی غرض سے آئی۔ جب وہ یونیورسٹی کے صحن سے گزر رہی تھی تو مذہبی انتشار پسند افراد کے ایک گروپ نے اسے روک لیا اور اس سے اپنا نقاب ہٹانے کو کہا لیکن اس نے ان کی بات ماننے کی بجائے اپنی مٹھی فضا میں بلندکر کے "اللہ اکبر” کا نعرہ لگایا۔
تفصیلات کے مطابق ریاست کرناٹک میں یہ بحران اس وقت شروع ہوا جب مسلمان خواتین طالبات کو سر پر اسکارف پہننے کی وجہ سے ان کے سرکاری اسکول میں داخلے سے منع کر دیا گیا جس سے خطے میں کئی دنوں تک مظاہرے ہوتے رہے۔ ان مظاہروں کی قیادت کرنے والی خواتین نے ریاستی حکام کے جاری کردہ من مانی فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران بھارتی ریاست کرناٹک کے کئی سرکاری تعلیمی اداروں نے مسلم طلباء کے سر پر اسکارف پہننے پر پابندی عائد کر دی ہے جبکہ گزشتہ منگل کو جنوبی ہندوستان کی ایک ریاست میں حکام نے مظاہروں کے بڑھنے کے بعد سیکنڈری اسکولوں کو تین دن کے لیے بند کرنے کا حکم دیا۔
علاقے میں نئے مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں جس کے دوران پولیس نے ایک سرکاری اسکول کے کیمپس میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے پھینکے۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ "سر پر اسکارف پر پابندی بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے تحت ہندوستان کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرتی ہے کیونکہ یہ کسی کے مذہبی عقائد اور آزادی اظہار رائے اور تعلیم کی آزادی کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔”
ہیومن رائٹس واچ نے زور دے کر کہا کہ "پردہ پر پابندی ہندوستانی حکام کی طرف سے مسلمانوں کو پسماندہ کرنے اور انہیں بڑھتے ہوئے تشدد کے سامنے لانے کی بڑھتی ہوئی کوششوں کی تازہ ترین مثال ہے۔”