کویت اردو نیوز 09 دسمبر: جمعہ کے دن بعض دوست احباب جمعہ مبارک مبارکباد کے پیغامات واٹس اپ پر بھیجتے ہیں۔ اور کچھ فیس بک پر اس کی تشہیر کرتے ہیں اور رمضان کے آخری جمعہ میں تو جمعۃ الوداع کی مبارکباد کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کے لئے جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ جمعہ ’’عید المؤمنین ‘‘ہے۔
یہ بات تو درست ہے کہ جمعہ مسلمانوں کے لئے ہفتہ واری عید ہے اور ایک روایت میں نبی اکرم ﷺ نے بھی اسے مسلمانوں کی عید کہا ہے۔
إن هذا يوم عيد، جعله الله للمسلمين (ابن ماجۃ: 1098 )
اور علامہ ابن قیم علیہ الرحمہ نے زاد المعاد میں جمعہ کے فضائل وخصائص کی روایات کو جمع کرکے لکھا ہے کہ یہ عید کا دن ہے جو ہر ہفتہ میں ایک بار آتی ہے۔ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد:367/1)
لیکن جس طرح عیدین، عید الفطر اور عید الاضحٰی میں مبارکباد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اور امت کے اسلاف سے منقول ہے، جمعہ کے دن کی مبارکباد دینا ان سے منقول وثابت نہیں ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ
وہ حضرات خیر کے بہت متلاشی اور خوگر تھے اور ہر خیر کے کام کر گزرنا ان کی کوشش، عادت و فطرت تھی۔ اگر واقعی اس دن میں مبارکباد دینا کوئی مستحسن ہوتی، تو وہ اسے ضرور اختیار کرتے۔
ہاں اس سے انکار نہیں ہے، کہ جمعہ کا دن فضیلت کا دن ہے اور ہفتہ واری افضل ترین دن ہے، اور مبارکبادی کی حقیقت یہ ہے کہ یہ دعا ہے اور ایک مسلمان کا اپنے مسلمان بھائی کو دعا دینا اچھی بات ہے تاہم
جب کسی جائز چیز کا رواج ایسا بڑھ رہا ہو کہ اس کے بارے میں بے اعتدالی اور بدعقیدگی کا خدشہ ہو، تو ایسی چیزوں کے فروغ کو اسلام روکتا ہے اور ناپسندیدہ سمجھتا ہے۔
اس لئے جمعہ کے دن کی مبارک باد دینا اگرچہ فی نفسہ جائز ہے لیکن جس طریقے سے جمعہ کی مبارک باد دینے کا رواج چل پڑا ہے اور دن بدن بڑھتا جارہا ہے اس سے یہ اندیشہ ہونے لگا ہے کہ کہیں لوگ دین اور ثواب سمجھ کر اسے نہ اپنانے لگیں۔
اس لئے اس کو فروغ دینے سے بچنا چاہئے۔ بعض صاحب علم حضرات نے جمعہ کے دن جمعہ مبارک کہہ کر کسی کو مبارک باد پیش کرنے کو بدعت قرار دیا ہے۔
اس نوعیت کی شدت صحیح نہیں ہے، ہاں ہر جمعہ کو اہتمام کے ساتھ لوگوں کو جمعہ مبارک کہہ کر مبارکبادی دینے کی عادت بنانا بھی صحیح نہیں ہے۔ واللہ اعلم! اللہ تعالی ہمیں دین سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین