مصر کی مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیق اور افتاء کے مطابق پیغمبر اسلام ﷺ نے سنہ 9 ہجری میں مسلمانوں پر پہلا حج فرض ہونے سے متعلق حکم الہیٰ صادر فرمایا۔ تمام علمائے کرام نے اس کی تائید کی ہے۔ نبی کریمؐ نے امیر حج کی ذمہ داری حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سونپی۔
مصری افتا کونسل کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جب نو ہجری میں حج کا وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا۔ مسلمانوں کا یہ پہلا فریضہ حج تھا اور پہلی بار تین سو مسلمانوں نے فریضہ حج ادا کیا۔ اس سے قبل مسلمانوں پر حج فرض نہیں تھا اور اس طرح پہلے امیر حج کا فریضہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ادا کیا۔ حضرت ابوبکرؓ کے صحابہ کرام کے ساتھ سفر حج کے بعد سورہ "براء” (سورہ توبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ اس قرآنی سورت میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان طے پائے
معاہدے کو مشرکین کی طرف سے توڑے جانے پر سخت تنبیہ کی۔ حکم دیا کہ آج کے بعد مشرکین حرم میں داخل نہیں ہوں گے اور کسی کو حرمت والے مہینوں میں جنگ سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علیؓ بن ابی طالب کو بلایا اور
ان سے فرمایا کہ آپ سورہ ’برات‘ میں بیان کردہ احکامات حج کے موقعے پر مسلمانوں کو علی الاعلان بتائیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مشرکین کے حوالے سے آیات منیٰ میں جمع مسلمانوں کے سامنے بیان کیں۔آپ ﷺ کے حکم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں انہوں نے کہا کہ ’کوئی کافر جنت میں نہیں جائے گا، آج کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکے گا، بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکے گا، یہ معاہدہ مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان اس وقت تک تھا جب تک کہ اسے توڑا نہیں گیا۔
حضرت علیؓ بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار ہو کر نکلے۔ راستے میں حضرت ابوبکرؓ رضی اللہ عنہ سے ملے اور جب ابوبکرؓ رضی اللہ عنہ نے انہیں راستے میں دیکھا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ امیر ہیں یا مامور، حضرت علی نے فرمایا کہ میں مامور ہوں یعنی مجھے رسول اللہ نے کچھ احکامات کے ساتھ بھیجا ہے۔
پھر دونوں جلیل القدر صحابہ آگے چل دیے۔ حضرت ابوبکرؓ کی امارت میں مسلمانوں نے حج ادا کیا۔ قربانی کے دن حضرت علیؓ بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دی گئی ہدایات پیش کیں اور نئے احکامات بتائے۔
مصر کی مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیق و افتاء نے تصدیق کی ہے کہ یہ بات درست ہے کہ حج کی فرضیت سن نو ہجری میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے حج فرض نہیں کیا تھا کیونکہ اس سے پہلے اس کا فرض کرنا حکمت کے خلاف تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قریش مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمرہ کرنے سے روکا لہٰذا یہ ممکن اور متوقع تھا کہ وہ مسلمانوں کو حج سے بھی روک دیتے۔