کویت اردو نیوز 16 اکتوبر: مصر میں پیدا ہونے والے عرب والدین کے بچے کی غیر معمولی صلاحیتوں نے سب کو حیران کردیا۔ بچہ پیدائشی طور پر عربی نہیں بلکہ صرف انگریزی زبان بول سکتا ہے۔ بچے کی غیر معمولی ذہانت اس کے والدین کیلئے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے کیونکہ نوح کو اس کی بیماری کی وجہ سے اسکول میں داخلہ بھی نہیں مل پا رہا۔
یہ کہانی ایک عرب بچے کی ہے جو پیدائشی طور پر عربی نہیں بلکہ صرف انگریزی بول سکتا ہے، سوشل میڈیا پر ’نوح کا حق تعلیم‘کے ہیش ٹیگ کے ساتھ مصر میں چند روز قبل ایک 8 سالہ بچے کے دفاع کے لیے ایک مہم شروع کی گئی تھی۔ 8سالہ نوح تعلیم سے محروم تھا اور اس کی غیرمعمولی صلاحیت کے باوجود کوئی اسکول اسے داخلہ دینے کو تیار نہیں۔
ننھے نوح کا کا مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب اس کے والدین نے اپنے دیگر بچوں کی طرح اسے اسکول داخل کرانے کیلئے درخواست دی۔ اسکول انتظامیہ کا کہنا تھا کہ نوح کے پیدائشی ایسپرجر سنڈروم اور آٹزم سپیکٹرم ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے اسے اسکول داخل نہیں کیا جاسکتا۔ مذکورہ بیماری ایسی ہے کہ جس سے بچہ صرف انگریزی بول سکتا ہے۔
بچے کی غیر معمولی صلاحیتیں:
نوح کی والدہ ایمان عمر نے’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘کو بتایا کہ ان کا بیٹا ایک سنڈروم کے ساتھ پیدا ہوا تھا جس کی وجہ سے وہ انگریزی سیکھے بغیر روانی سے بول سکتا مگر وہ عربی نہیں بول سکتا۔!
انہوں نے کہا کہ اس کی دوسری صلاحیتیں کچھ عرصہ قبل ظاہر ہونا شروع ہوئیں۔ وہ کارٹون فلمیں تیار کرسکتا ہے۔ ان کرداروں کو ڈرائنگ کرنے اور انہیں تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، مانٹیجز اور پروڈکشن بھی کرتا ہے، اس کے علاوہ وہ ان پر اپنی آواز بھی ریکارڈ کرتا ہے!”۔
انہوں نے بتایا کہ ہم نے نوح کو ایسے اسکولوں میں داخل کرنے کی کوشش کی جہاں صرف انگریزی میں تعلیم دی جاتی ہے مگر آٹزم کی وجہ سے اسے داخلہ نہیں مل سکا۔
والدہ نے انکشاف کیا کہ بعض عہدیداروں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ مزید ایک سال کے لیے نوح کو اسکول نہ بھیجیں۔ اس کے بعد کسی ایسے سرکاری ادارے میں داخل کیا جائے مگر ہمیں بچے کے آٹزم کے عارضے کی وجہ سے ہمیں وہاں بھی بچے کے داخلے کی اجازت نہیں ملی۔
سب سے بڑا مسئلہ:
نوح کی ماں نے وضاحت کی کہ وہ 19 دیگر اسکولوں میں بھی گئیں لیکن انہوں نے اسے ہمارے پڑوس میں اس کی بیماری کی وجہ سے یا اس وجہ سے کہ وہ دوسرے اوقات میں داخلہ لینے کے لیے مقررہ عمر سے دو ماہ بڑا تھا داخلہ نہیں دیا۔
تاہم انہوں نے زور دے کر کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کا بچہ عمر کے آٹھویں سال میں داخل ہو چکا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اسکول میں داخلے کے لیے مقررہ عمر سے تجاوز کر جائے گا اور اس وجہ سے وہ مستقل اور ہمیشہ کے لیے تعلیم سے محروم رہے گا۔
نوح اپنے والد کے ساتھ
اس انسانیت سوز مسئلے کے پیش نظر سوشل میڈیا کے کارکنوں نے ہیش ٹیگ "نوح کا حق تعلیم” مہم کا آغاز کیا ہے جس میں ہونہار بچے کو بچانے، اسے اسکولوں میں داخل کرنے اور اسے تعلیم کے حق سے محروم نہ کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
انہوں نے وزیر تعلیم سے بھی اپیل کی کہ انہیں ان تمام فیصلوں اور شرائط سے باہر رکھا جائے جو ان کے اور ان کے خاندان کے خواب میں رکاوٹ بنتے ہیں۔