پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں کرونا وائرس سے دنیا کو درپیش مسائل پر بات کی جبکہ بھارت کی حکومت کے انتہاپسندانہ اقدامات سے دنیا کو آگاہ کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 75 ویں اجلاس میں آن لائن خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب سے میری حکومت آئی ہے پاکستان کو ’نیا پاکستان‘ بنا رہے ہیں جو ریاست مدینہ کی طرز پر قائم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں امن و استحکام کی ضرورت ہے جومذاکرات سے ممکن ہے۔ جنرل اسمبلی دنیا میں واحد ادارہ ہے جو امن حاصل کرنے میں ہماری مدد کرسکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کرونا وائرس پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عالمگیر وبا نے غریب ممالک کی معاشی حالت کو مزید ابتر کردیا ہے انہوں کہا کہ دنیا میں کوئی محفوظ نہیں ہے لاک ڈاؤن سے دنیا میں کساد بازاری ہوئی اور تمام ممالک غریب ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں لاک ڈاؤن سے قبل ہم نے لاک ڈاؤن کے باعث بھوک سے زیادہ ہلاکتوں کے خدشے پر ہم نے اسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی اور ہم نے زراعت کے شعبے کو فوری کھول دیا جس کے بعد تعمیراتی شعبے کو بھی کھول دیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ میری حکومت نے 8 ارب ڈالر صحت کے شعبے اور احساس پروگرام کے ذریعے غریبوں کی مدد کے لیے مختص کیا، اس سے ہم نے نہ صرف وائرس کو پھیلنے سے روکا بلکہ معیشت کو بھی بحال رکھا۔ انہوں نے کہا کہ آج پاکستان کے اقدامات کرونا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ایک کامیاب کہانی بن چکی ہے۔
مزید پڑھیں: کورونا کو کس طرح شکست دی جاتی ہے یہ دنیا کو پاکستان سے سیکھنا چاہیے: ڈائریکٹر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن
وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے لیے پاکستان نے اگلے تین برسوں میں 10 ارب درخت لگانے کا پروگرام شروع کیا۔انہوں نے کہا کہ وبا انسانیت کو متحد کرنے کے لیے ایک موقع تھا لیکن بدقسمتی سے قوم پرستی، بین الاقوامی سطح پر کشیدگی میں اضافہ ہوا اور مذہبی سطح پر نفرت میں اضافہ ہوا اور اسلاموفوبیا بھی سر چڑھ کر بولنے لگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مقدس مزارات کو نشانہ بنایا گیا ہمارے پیغمبر ﷺ کی گستاخی کی گئی، قرآن کو جلایا گیا اور یہ سب کچھ اظہار آزادی کے نام پر کیا گیا، چارلی ہیبڈو نے گستاخانہ خاکے دوبارہ شائع کرنے کی بات کی جو حالیہ مثال ہے۔
عمران خان نے کہا کہ دنیا میں بھارت واحد ملک ہے جہاں ریاست کی معاونت سے اسلاموفوبیا ہے اس کی وجہ آر ایس ایس کے نظریات ہیں جو بدقسمتی سے بھارت میں حکمران ہے۔ بھارت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس انتہا پسند نظریے کی تشکیل 1920 کی دہائی میں ہوئی اور اس کے بانی اراکین نازی نظریات سے متاثر تھے، نازی یہودیوں کو نشانہ بناتے تھے اور آر ایس ایس مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ بھارت صرف ہندوؤں کے لیے ہے اور دیگر برابر کے شہری نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گاندھی اور نہرو کے سیکولرزم کی جگہ ہندو راشٹریہ بنانے کے خواب نے لی ہے اور یہاں تک کہ 20 کروڑ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ختم کرکے ہندو ریاست بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ 1992 میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا اور 2002 میں تقریباً دو ہزار مسلمانوں کا قتل عام وزیراعلی مودی کی قیادت میں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 2007 میں آر ایس ایس کے غنڈوں نے سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین پر سوار 50 سے زائد مسلمانوں کو زندگی جلادیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آسام میں امتیازی قوانین کے ذریعے 20 لاکھ مسلمانوں کو جبراً شہریت سے محروم کیے جانے کا خطرہ ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کو درپیش مظالم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ بھارت کے مسلمان شہریوں کی بڑی تعداد کو حراستی کیمپوں میں بھیجا جارہا ہے، مسلمانوں کو کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے جھوٹے الزام کے تحت بدنام کرنے کے ساتھ ساتھ نشانہ بھی بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کو بعض اوقات طبی امداد سے بھی محروم رکھا جاتا اور ان کے کاروبار کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گاؤ رکھشا مسلمانوں پر بلا خوف و خطر حملے کررہے ہیں اور قتل کررہے ہیں، نئی دہلی میں گزشتہ فروری میں پولیس کی ملی بھگت سے مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا گیا، ماضی میں بڑے پیمانے پر رجسٹریشن کا عمل نسل کشی کا باعث بن چکا ہے۔
مثالوں سے واضح کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جرمنی 1935 میں نیورمبرگ قوانین اور 1982 میں میانمار کی مثال ہے، ہندو روا نظریہ کا مقصد 30 کروڑ سے زائد انسانوں مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کو محدود کرنا ہے، جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور بھارت کے مستقبل کے لیے بھی یہ نیک شگون نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان و کویت باہمی تعلقات کے فروغ کے لیے پر عزم
مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی ماورائے قانون کارروائیوں کو اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت نے72 برسوں سے جموں و کشمیر پر غیر قانونی طور پر قابض ہے، کشمیر کے عوام کی خواہشات کے برعکس اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
افغانستان امن عمل اور پاکستان کا کردار
وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کا خواہش مند ہے اور افغانستان میں پرامن سیاسی حل چاہتا ہے اور گزشتہ 2 دہائیوں سے مسلسل یہ مؤقف رہا ہے کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے اور آگے بڑھنے کا واحد راستہ سیاسی حل تھا اور ہے، جس میں افغانستان کی پوری سیاسی قیادت شامل ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس عمل میں مکمل طور پر تعاون کیا اور اس کا نتیجہ 29 فروری 2020 کو امریکا – طالبان امن معاہدے کی صورت میں سامنے آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مطمئن ہے کہ ہم نے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کی ہے، افغان قیادت کو سمجھنا ہوگا کہ امن کے لیے یہ تاریخی موقع ہے اور جنگ زدہ ملک میں امن کو بحال کردینا چاہیے۔
افغانستان کے امن عمل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات کے تحت 12 ستمبر سے شروع ہوئے مذاکرات کے ذریعے جامع سیاسی حل نکالیں، یہ عمل ہر صورت کسی مداخلت یا اثر و رسوخ کے بغیر افغانستان کے اندر ہونا چاہیے اور ان کی سرپرستی میں ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ افغان پناہ گزینوں کی جلد واپسی بھی سیاسی حل کا حصہ ہونا چاہیے، دودہائیوں کی جنگ کے بعد ضروری ہے کہ افغانستان کے اندر اور باہر سے اس عمل کونقصان پہنچانے والے عناصر کو اجازت نہیں دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن سے ترقی اور علاقائی رابطوں کے لیے نئی راہیں کھلیں گی۔
فلسطین کے لیے حمایت کا اعادہ
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فلسطین کا مسئلہ آج بھی ایک رستا ہوا زخم ہے، اس کے حتمی اور منصفانہ حل مشرق وسطیٰ اور دنیا کے لیے ناگزیر ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی علاقے کا غیر قانونی الحاق، غیرقانونی بستیوں کی تعمیر اور فلسطین کے عوام کے لیے غیر انسانی رہائشی صورت حال خاص کر غزہ کے حالات کے نتیجے میں خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان دو ریاستی حل کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حدود کے مطابق حمایت کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1967 سے قبل کی سرحدوں پر واپسی اور القدس شریف ایک متحدہ اور آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہوں۔
پاکستان اپنا کردار ادا کرتا رہے گا
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ آج بھی بین الاقوامی تنازعات سے نبردآزما ہونے، امن و سلامتی کی ترویج مساوی بنیادوں پر ترقیاتی عمل کو فروغ دینے اور عالمی مسائل کو حل کرنے کے لیے مجموعی اقدام کرنے کا بہترین قانونی ادارہ ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ میں سکریٹری جنرل پر زور دیتا ہوں کہ وہ عالمی تنازعات کی روک تھام کے لیے آگے بڑھیں، انہیں سلتے ہوئے علاقائی تنازعات اور دیرینہ مسائل کے حل کے لیے سربراہی اجلاس طلب کرنے چاہیئں۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کو موجودہ دور کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فوری کردار ادا کرنا چاہیے، سلامتی کونسل سمیت اقوام متحدہ میں جامع اصلاحات ضروری ہیں۔