کویت اردو نیوز : بھوتوں کی کہانیاں سن کر آپ کی راتوں کی نیندیں اُڑ جاتی ہے لیکن ایک ملک ایسا بھی ہے جہاں کے لوگ جن دیکھتے ہیں اور ان سے بات کرتے ہیں۔
عمان کا ایک قصبہ ہے جہاں لوگ کہتے ہیں کہ وہ نہ صرف جنوں کے ساتھ رہتے ہیں بلکہ ان کے لیے کام کرنے والے جنات کو بھی دیکھتے ہیں۔
یہ قصبہ عمان کے دارالحکومت مسقط سے تقریباً 200 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے، یہ علاقہ الداخلیہ صوبے میں شامل ہے، زیادہ تر مکانات مٹی کی اینٹوں سے بنے ہیں اور وہاں کھجور کے درخت اور جھاڑیاں ہیں۔ یہ ایک صحرائی علاقہ ہے اور عرب خطے کا سب سے اونچا پہاڑی سلسلہ کوہ حجر بھی یہاں سے گزرتا ہے۔
بہلا میں داخل ہوتے ہی عمارتوں کی شان و شوکت، فضا کی خاموشی حیرت انگیز ہے، یہ علاقہ عمان کی قدیم ترین انسانی بستیوں میں سے ایک ہے۔ قابل ذکر ہے کہ یہ علاقہ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ہے، یہاں کا قلعہ قرون وسطیٰ میں تعمیر کیا گیا تھا۔
حماد العربانی ایک ٹور گائیڈ ہے جو سیاحوں کو قرون وسطی کے قلعے اور علاقے کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں جنات کا وجود محض اتفاق نہیں ہے، وہ بھی خدا کے بنائی ہوئی مخلوق ہیں۔
حماد العربانی جنات سے متعلق کئی قصے یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جنات نے ایک ہی رات میں 13 کلومیٹر لمبی دیوار تعمیر کی تاکہ اس قصبے کو حملہ آوروں سے محفوظ رکھا جا سکے۔
55 سالہ ربانی کا کہنا ہے کہ قصبے میں جنوں کے بارے میں ایک اور مشہور کہانی یہ ہے کہ آبپاشی کا قدیم ترین نظام جنوں نے بنایا تھا، جو یہاں کاشتکاری کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ بہلذ کے لوگوں کا جنات اور ان سے منسوب کہانیوں سے اتنا گہرا تعلق ہے کہ شاید ہی کہیں اور ملے۔
ربانی نے کہا کہ یہاں کے لوگوں کا ماننا ہے کہ جنات جب چاہیں کوئی بھی شکل اختیار کر سکتے ہیں، چاہے وہ گھوڑا یا کوئی اور جانور بننا چاہے یا نظروں سے اوجھل ہو جائے۔
اس نے بتایا کہ بستی کی ایک عورت کو آدھی رات کو اپنی گائے کے دودھ دھونےکی آوازیں آتی تھیں، وہ کئی بار دیکھنے کے لیے اٹھی لیکن کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔
محمد الہاشمی جن کی عمر 70 سال ہے، کہتے ہیں کہ ان کی زندگی جنوں اور بھوتوں کی کہانیاں سننے اور سنانے میں گزری۔ انہوں نے کہا کہ بچپن میں سنا تھا کہ رات کے وقت جنات لگڑ بھگڑ کی شکل میں اونٹوں کا پیچھا کرتے ہیں اور ان کے منہ سے شعلے نکلتے ہیں۔ بزرگ انہیں مشورہ دیتے تھے کہ غروب آفتاب کے بعد گھر سے باہر نہ نکلیں کیونکہ کوئی جن یا جادو انہیں گھیر لے گا۔
نئی نسل کا جنات کی کہانیوں پر یقین کم ہے، 24 سالہ میزان کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے دادا دادی کی کہانیاں ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ ان میں کیا صحیح ہے یا غلط۔
لاس اینجلس کی لویولا میری ماؤنٹ یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ کے پروفیسر علی اولمی نے کہا کہ جنوں کے بارے میں کہانیاں عرب خطے کی قدیم تحریروں اور داستانوں میں پائی جاتی ہیں۔
پروفیسر علی اولومی نے کہا کہ بہلا سے منسوب کہانیاں شاید زیادہ ہیں کیونکہ یہ علاقہ صحرا سے گھرا ہوا ہے، جہاں حجر پہاڑی سلسلہ اس راز میں اضافہ کرتا ہے۔