کویت اردو نیوز : مصنوعی ذہانت (AI) ٹیکنالوجی کی مدد سے خواتین کی نامناسب جعلی تصاویر بنانے والی ایپس اور ویب سائٹس کے استعمال میں حالیہ مہینوں میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے۔
گرافیکا نامی کمپنی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ صرف ستمبر 2023 میں 24 ملین افراد نے ایسی ویب سائٹس کا استعمال کیا جو ڈیپ فیک تصاویر تیار کرتی تھیں۔
ڈیپ فیک ٹیکنالوجی استعمال کرنے والی زیادہ تر ایپس یا ویب سائٹس نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے مارکیٹنگ کے لیے مقبول سوشل نیٹ ورکس کا استعمال کیا۔
واضح رہے کہ ڈیپ فیک ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس میں کسی شخص کے چہرے یا آواز کو آسانی سے کسی دوسرے شخص سے تبدیل کیا جا سکتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی ایسے شخص کی تصویر، ویڈیو یا آڈیو ہے جو دراصل وہ نہیں ہے۔ .
تحقیق کے مطابق 2023 کے دوران X جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایسی ایپس کے لنکس کی تعداد میں 24 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔
تحقیق کے مطابق ایسی زیادہ تر سروسز صرف خواتین کی تصاویر پر کام کرتی ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ایسا مواد پوسٹ کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے خواتین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ ایکس میں ایک ایپ نے ایک تصویر پوسٹ کی اور لوگوں کو بتایا کہ وہ نامناسب تصاویر بنا کر اس شخص کو بھیج سکتے ہیں جس کے پاس تصویر تھی۔
ایسی ہی ایک ایپ نے یوٹیوب پر سپانسر شدہ مواد بھی چلایا۔
اس حوالے سے گوگل کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم نامناسب مواد پر مشتمل اشتہارات کی اجازت نہیں دیتے اور پالیسیوں کی خلاف ورزی کرنے والے اشتہارات کو حذف کر دیا جاتا ہے۔
فلمی ستاروں کی ایسی جعلی تصاویر یا ویڈیوز پہلے ہی انٹرنیٹ پر وائرل ہو رہی ہیں لیکن ماہرین کو خدشہ ہے کہ اے آئی ٹیکنالوجی میں پیشرفت کے باعث ڈیپ فیک سافٹ ویئر کا استعمال آسان ہو جائے گا جبکہ جعلی مواد کو پکڑنا مشکل ہو جائے گا۔
محققین کے مطابق ہم نے دیکھا ہے کہ عام لوگوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ متاثرہ خواتین میں سے زیادہ تر تصاویر سے واقف نہیں تھیں اور جو لوگ اس سے آگاہ تھے، انہیں قانونی کارروائی کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔