کویت اردو نیوز : رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف ’’سنت مؤکدہ علی الکفایہ‘‘ ہے جس کے لیے روزہ شرط ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ اعتکاف کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ بیمار کے پاس نہ جائے۔ نہ عیادت پر جائے، نہ جنازے میں شرکت کرے، نہ کسی عورت کو چھوئے، نہ ازدواجی کام کرے۔ نہ تو بغیر ناگزیر ضرورت کے کسی ضرورت کیلیے (مسجد سے) باہرنکلے،اور نہ ہی روزےکےبغیر اعتکاف کرےاور(صرف جامع مسجدمیں ہی) اعتکاف کرے۔
اِعتکاف کرنے والے کے لیے بغیر جسمانی اور دینی ضرورت کے مسجد سے نکلنا جائز نہیں، خواہ رات کو ہو یا دن میں۔
شرعی عذر کے ساتھ واجب وضو یا وضو کے لیے مسجد سے نکلنا۔
جسمانی عذر کامطلب ہےکہ قضائے حاجت کیلیے مسجد سے نکلنا۔
اگر مسجد میں جمعہ نہ ہو تو دوسری مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے جانا شرعی عذر ہے۔
اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو جان و مال کو بچانے کے لیے مسجد سے نکلنا جائز ہے۔
اگرکوئی بیمارکی عیادت اور نماز جنازہ میں شرکت کیلیے مسجدسےنکلےتو اعتکاف فاسدہو جائیگا۔
ازدواجی تعلقات حرام ہیں ، ان سے اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔
اعتکاف کرنے والا بے ہوش ہو گیا یا دیوانہ ہو گیا اور اتنا طویل رہا کہ روزہ نہ رکھ سکا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا اور قضا واجب ہو گی۔
بیماری کے علاج کے لیے مسجد سے نکلا تو اعتکاف فاسد ہوگیا۔
اعتکاف کیلیے روزہ شرط ہے، لہٰذا روزہ توڑنےسےبھی اعتکاف ٹوٹ جاتاہے، چاہےروزہ کسی عذرسے ٹوٹا ہویاپھربغیر عذر کے، اگر جان بوجھ کریا غلطی سےروزہ ٹوٹ گیاہو، بہر حال اعتکاف فاسدہوگیا ہے۔
اعتکاف کوغسلِ فجراور غسلِ مسنون (جمعہ کے غسل) کےعلاوہ ٹھنڈا ہونے کیلیےغسل کرنےکی اجازت نہیں ہے۔