کویت اردو نیوز 29 مارچ: امریکی محکمہ صحت و انسانی خدمات نے معروف پاکستانی نژاد امریکی ماہر نفسیات فرحا عباسی کو ملک کی اعلیٰ خواتین مذہبی رہنماؤں میں سے ایک کے طور پر نامزدکیا ہے۔
پاکستانی سفارتخانے کے مطابق ڈاکٹر فرحا عباسی امریکا کی مشی گن یونیورسٹی کالج آف اوسٹیو پیتھک میڈیسن (ایم ایس یو سی او ایم) کے شعبہ سائیکالوجی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں جنہیں کل (جمعرات کو ) ویمن آن دی فرنٹ لائنز: سیلیبریٹنگ ویمن فیتھ لیڈرز کی تقریب میں یہ اعزاز دیا جائےگا۔
امریکا کے صحت اور انسانی خدمات کے سیکرٹری زیویئر بیسیرا کی جانب سے دعوت نامہ میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر فرحا عباسی نے 2009 میں امریکن سائیکاٹرک ایسوسی ایشن سمشا اقلیتی فیلوشپ حاصل کی اور اس گرانٹ کی رقم کو ثقافتی قابلیت بارے شعور اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا۔
انہوں نے عقیدہ اور ثقافتی نفسیات اور میڈیکل کے طلبا کو مسلمان مریضوں کو ان کے ثقافتی پس منظر میں دیکھ بھال کی تعلیم فراہم کی ۔
پاکستانی سفارتخانے کہا کہ ڈاکٹر فرحا عباسی نے مرکزی معاشرے سے علیحدگی کی بجائےاس میں انضمام کی حمایت کے لیے مسلم امریکی کمیونٹی کے ساتھ براہ راست کام کیا ہے ۔
ڈاکٹر فرحا عباسی سالانہ مسلم مینٹل ہیلتھ کانفرنس کی بانی ڈائریکٹر ہیں جس میں 30 ممالک کے ماہرین نے شرکت کی۔ انہوں نے ملائیشیا اور اردن میں گلوبل مسلم مینٹل ہیلتھ کانفرنس کا بھی آغاز کیا اور گھریلو تشدد اور منشیات کے استعمال سے متاثرہ افراد کے لیے محفوظ جگہیں بنانے کے لیے بھی کوششیں کر رہی ہیں۔
امریکا میں پاکستان کے سفیر مسعود خان نے کو ڈاکٹر فرحا عباسی کو ٹیلی فون کر کے مبارکباد دی۔ انہوں نے کہاکہ یہ ہمارے لئے ایک اور اعزاز ہے، جو پاکستانی تارکین وطن کی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹرفرحا عباسی نے کہا کہ وہ گزشتہ 15 سالوں سے دماغی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے نہ صرف عقیدے اور ثقافتی بنیادوں پر حل کی افادیت کو تقویت دینے کے لیے کام کر رہی ہیں بلکہ اس بدنما داغ کو دور کرنے کے لیے بھی کام کر رہی ہیں جو عام طور پر ذہنی صحت کے مسائل کے ساتھ منسلک کر دیئے جاتے ہیں اور خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں پیش آتے ہیں۔
پاکستانی سفیر نے امریکی اورپاکستانی لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں ڈاکٹر فرحا کی کوششوں کا بھی اعتراف کیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا میں پاکستانی نژاد ڈاکٹروں کی کمیونٹی اپنے پاکستانی بھائیوں اور بہنوں کی ذہنی صحت سے متعلق مسائل کے حل، زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کرنے، وسائل کی رکاوٹوں پر قابو پانے اور میں مدد کر سکتی ہے۔