آج سے 30 سال قبل یعنی 17 جنوری 1991 کو کویتی شہری صبح اٹھے تو یہ خبر ان کی منتظر تھی کہ اُن کے ملک پر پانچ ماہ سے جاری عراقی قبضہ چھڑانے کے لیے جنگ شروع ہو گئی تھی۔
بی بی سی کے سکیورٹی نامہ نگار فرینک گارڈنر نے خالد الصباح کا انٹرویو کیا جو قبضے کے پورے دورانیے میں کویت میں تھے اور اُنھوں نے ایک فرضی نام کے ذریعے مزاحمت میں مدد دی۔ انھوں نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ اُنھیں امریکی قیادت میں شروع ہونے والے آپریشن ڈیزرٹ سٹورم کی شروعات کے دن کے بارے میں کیا یاد ہے۔
خالد: 17 جنوری کو رات کے ڈھائی بج رہے تھے۔ میں اپنے بیڈروم میں تھا اور بی بی سی ورلڈ سروس کو سننے کی کوشش کر رہا تھا۔ ویسے تو عراقی ریڈیائی لہروں کو جام کرنے کی پوری کوشش کر رہے تھے مگر خوش قسمتی سے میں یہ بریکنگ نیوز سننے میں کامیاب ہوگیا کہ اتحاد نے اپنی فضائی جنگ شروع کر دی ہے اور کویت کی آزادی کی جنگ شروع ہو گئی ہے۔
میں خوشی، جوش اور ہیجان کے جذبات سے بھر گیا تھا۔ میں اس وقت کویت سٹی کے مضافات میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ ایک محفوظ ٹھکانے میں رہ رہا تھا کیونکہ شہر میں ہمارے انکل کے گھر پر رہنا نہایت خطرناک تھا کیونکہ یہ عراقی سفارت خانے سے چند سو میٹر ہی دور تھا۔
میں اپنے انکل اور آنٹی کو یہ خبر سنانے کے لیے نہایت بے تاب تھا مگر میں انھیں اتنی صبح اٹھانا بھی نہیں چاہتا تھا۔ چنانچہ میں نے اپنے انکل احمد کے نام ایک نوٹ لکھا اور ان کے بیڈروم کے دروازے کے نیچے پھنسا دیا۔ میں نے اس کا چھوٹا سا حصہ باہر رہنے دیا تاکہ عراقی سپاہی جنھوں نے ہمارے پڑوس میں موجود سکول پر قبضہ کر رکھا تھا، اگر وہ ہمارے گھر میں گھسنے کی کوشش کریں تو میں فوراً اسے نکال کر نگل سکوں۔
اس کے بعد میں ہمارے محفوظ کمرے کو چیک کرنے کے لیے نیچے گیا جسے میں کئی ہفتوں سے تیار کر رہا تھا کہ کہیں کیمیائی حملہ نہ ہوجائے۔ میں نے یقینی بنایا کہ کوئی چیز بھی ادھوری نہیں ہے۔
گارڈنر: کیا آپ جنگ شروع ہونے کی توقع کر رہے تھے؟
خالد: (صدام کو کویت سے اپنی فوجیں واپس بلانے کے لیے) اقوامِ متحدہ کی 15 جنوری 1991 کی ڈیڈلائن ختم ہوئی تو ہمیں اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ کویت کی آزادی کی جنگ شروع ہونے والی ہے۔ مقبوضہ کویت میں عراقی افواج کا مورال تب تک بالکل ختم ہو چکا تھا۔ عراقی اور کویتی دینار کی شرحِ تبادلہ جسے میں بغور دیکھ رہا تھا اس میں صورتحال تیزی سے کویتی دینار کے حق میں بہتر ہو رہی تھی۔ میرے نزدیک یہ موجودہ صورتحال کے بارے میں حقیقت کے سب سے قریب اشارہ تھا۔
گارڈنر: اس وقت کویت پر عراقی قبضے کو پانچ ماہ سے زیادہ گزر چکے تھے۔ کویت میں اس وقت کیا صورتحال تھی؟
خالد: عراقی فورسز مسلسل لوگوں کی گرفتاریاں جاری رکھے ہوئے تھیں اور چوریاں اور گھروں میں گھس جانے کا سلسلہ کبھی بھی تھما نہیں تھا۔ طبی سہولیات کی کمی تھی اور دواؤں اور پانی کو ذخیرہ کر کے رکھنا پڑتا تھا مگر کھانے کی چیزوں کی صورتحال اتنی بری نہیں تھی جتنی کہ ملک سے باہر موجود لوگوں کا خیال تھا اور بجلی بھی معمول کے مطابق فراہم کی جا رہی تھی۔
گارڈنر: کویتیوں نے آپریشن ڈیزرٹ سٹورم شروع ہونے کی خبر پر کیسے ردِ عمل دیا؟
خالد: اگر میں یہ کہوں کہ کویتی انتہائی خوش اور ساتویں آسمان پر تھے تو بھی میں جذبات کی صحیح عکاسی نہیں کر سکوں گا۔ ہمارے مورال میں بے پناہ اضافہ ہوا تھا مگر ہمیں پھر بھی قابض فورسز کے سامنے اپنے جذبات اور خود پر قابو رکھنا تھا۔
گارڈنر: آپریشن ڈیزرٹ سٹورم صرف 40 دن جاری رہا اور پھر عراقی جرنیلوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ پچیس سال بعد کیا کویتی اب بھی امریکی قیادت میں اتحادی فوج کی جانب سے اُن کے ملک کو آزاد کروانے کی کوشش کو یاد کرتے ہیں یا اب زیادہ تر لوگ نوجوان ہیں؟
خالد: کویت کی موجودہ آبادی 41 لاکھ ہے جس میں سے 14 لاکھ افراد کویتی ہیں۔ کویت کی آبادی میں سے 40 فیصد افراد 25 سال سے کم عمر ہیں۔ چنانچہ آپ کے پاس تقریباً پانچ لاکھ لوگ ایسے ہیں جو آزادی کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ میرے ذہن میں اس حوالے سے کوئی شبہ نہیں ہے کہ کویتی آبادی کی اکثریت اتحادی فوجوں کی قربانیوں کا تشکر کے ساتھ اعتراف کرتی اور انھیں یاد کرتی ہے۔
میں خود بھی ایک برطانوی فلاحی ادارے پوپی بال کا بانی رکن ہوں جس نے اب تک برطانوی فورسز کے فلاحی ادارے رائل برٹش لیجن کے لیے دس لاکھ پاؤنڈ (14 لاکھ 30 ہزار ڈالر) اکٹھے کیے ہیں۔ مگر ہاں افسوس کی بات ہے کہ ایلیمنٹری، مڈل اور سیکنڈری سکولوں میں کویتی بچوں کو حملے اور قبضے کے خوفناک حالات کے بارے میں زیادہ نہیں پڑھایا جاتا۔