روزنامہ عرب ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ریاستی وزیر برائے بلدیاتی امور ولید الجاسم کے تارکین وطن کی تعداد کو کم کرنے کے سلسلے میں اٹھائے جانے والے پہلے اقدام نے وسیع پیمانے پر عوامی اور پارلیمانی ردعمل کو جنم دیا ہے۔ ولید الجاسم نے ریاست کے تمام سیکٹرز سے غیر پیداواری کارکنوں کے خاتمے کے لئے یکساں اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
حکومتی منصوبے کے تحت پہلے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ملک سے نکال کر تعداد کو کم کیا گیا اور اب قانون سازی اور قوانین کے ذریعہ سنجیدہ اقدامات اٹھائے جائنگے تاکہ ملک میں موجود تارکین وطن کی تعداد جو تقریباً 70 فیصد ہے کم کیا جاسکے۔ ذرائع نے تصدیق کی کہ "کویتائزیشن” ہوگی اور سرکاری ملازمتوں میں اس کا اطلاق زیادہ ہوگا۔ اس کا پہلا قدم ریاستی وزیر برائے بلدیات امور کی ہدایت ہیں جسکے مطابق تارکین وطن کی تقرری بلدیہ میں بند کردی جائے۔
اسکے علاوہ 400،000 وہ تارکین وطن ملازمین بھی قابل غور ہیں جو معمولی کارکن سمجھے جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے کفیل کے لئے کام نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ معمولی کارکنوں اور رہائش گاہوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے علاوہ سرکاری اور نجی شعبے میں کام کرنے والے غیر تکنیکی ملازمین جہاں تارکین وطن کی ضرورت نہیں ہوتی ہے کیونکہ وہ اکثر دفتری کام انجام دیتے ہیں اور انکو کو معاہدہ کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے نوکریوں سے فارغ کردیئے جائنگے۔
اس منصوبے کا اطلاق اسلئے بھی ضروری ہوگیا ہے کیونکہ ملک نے سب سے ذیادہ مشکلات کرونا وائرس کے بحران کے دوران غیر ملکیوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے ہی اٹھائیں لہذا اب اس منصوبے کی منظوری عمل میں ہے اور جیسے ہی اس منصوبے کو مکمل پارلیمانی منظوری حاصل ہوجائے گی اس کا نفاذ قلیل مدت میں کردیا جائے گا۔ذرائع نے واضح کیا کہ سرکاری شعبے میں تارکین وطن کارکنوں کی تبدیلی کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد تین ماہ کے اندر عمل میں لائی جائے گی۔
سرکاری شعبے میں تارکین وطن کی جانچ کی جائے گی جو افراد اسائنمنٹ اور خدمات کے نظام کے ساتھ ساتھ غیر تکنیکی ملازمت میں ہیں ان کو تبدیل کیا جائے گا۔ معاہدہ کی بنیاد پر کام کرنے والوں کے معاہدوں کی تجدید نہیں کی جائے گی۔ کویتی نوجوانوں کو خصوصی ملازمتوں پر کام کرنے کے لئے تیار کرنے کے لئے تعلیمی اور تربیتی پروگرام تیار کئے جائینگے۔
ذرائع نے یہ وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس وقت جو قانون سازی کی جارہی ہے اس سے مخصوص تارکین وطن کی کمیونٹی کی تعداد میں کمی کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی قومیت 20 فیصد سے تجاوز نا کر پائے اور نا ہی کسی بھی محکمے میں کسی مخصوص قومیت کی اجارہ داری ہوسکے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ وزارت تعلیم اور وزارت صحت میں تکنیکی عہدوں پر مخصوص ممالک کی تقرریوں کے بجائے دوسرے ممالک کے لوگوں کو مواقع فراہم کرنے ہونگے۔
ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ وزارت تعلیم اردن ، فلسطین ، تیونس اور موریتانیہ سے اساتذہ کا معاہدہ کرے گی اور وزارت صحت بھارت اور پاکستان سے ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرے گی۔
دریں اثنا رکن پارلیمنٹ صفا الہاشم نے کہا کہ وہ تارکین وطن برادریوں پر کوٹہ سسٹم کے اطلاق کو ترجیح دیتی ہیں بشرطیکہ ہر قومیت میں ممبروں کی تعداد 100،000 سے زیادہ نہ ہو۔ انہوں نے حساس عہدوں پر غیر ملکیوں کی دراندازی اور حکومتی فیصلوں پر ان کے کنٹرول کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
حوالہ: عرب ٹائمز