کویت اردو نیوز 10 اکتوبر: پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتقال کر گئے۔
تفصیلات کے مطابق محسنِ پاکستان جوہری سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتقال کر گئے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ طبیعت بہت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو صبح 6 بجے اسلام آباد کے آر ایل اسپتال لایا گیا تھا۔ اسپتال ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا انتقال 85 سال کی عمر میں صبح 7 بج کر 4 منٹ پر ہوا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان 2006 سے کینسر جیسے مرض میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے ان کی کچھ عرصے سے طبیعت ناساز تھی۔ خاندانی ذرائع کے مطابق ڈاکٹر عبد القدیر خان کی نماز جنازہ آج فیصل مسجد میں ادا کی جائے گی جبکہ ان کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق
سیکٹر ایچ 8 قبرستان میں کی جائے گی۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان پہلے پاکستانی ہیں جنہیں 3 صدارتی ایوارڈ ملے۔ انہیں 2 بار نشانِ امتیاز سے نوازا گیا جبکہ ہلالِ امتیاز بھی عطاء کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1936ء میں بھارتی شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ وہ اہلِ خانہ کے ہمراہ 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان کے شہر کراچی آئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے
انجینئرنگ کی ڈگری 1967ء میں نیدر لینڈز کی ایک یونیورسٹی سے حاصل کی جبکہ 1972 میں بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن سے اکیڈمک، دھات کار، نظری طبیعیات میں ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 31 مئی 1976 کو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے پر کام شروع کیا اور 1984 میں اٹامک ڈیوائس بنانے میں کامیاب ہوئے بعدازاں صدر ضیا الحق نے اس ریسرچ سینٹر کا نام تبدیل کرکے ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ سینٹر کردیا تھا۔ محسن پاکستان نے 8 سال کی قلیل مدت میں ایٹمی پلانٹ نصب کرکے ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا اور دنیا کی حیرت میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب 1998 میں وزیراعظم نواز شریف کی اجازت سے بلوچستان کے شہر چاغی میں کامیاب ایٹمی تجربات کیے۔ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھنے والے اے کیو خان ریسرچ سینٹر نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زیر نگرانی غوری میزائل سمیت کئی چھوٹے بڑے جنگی آلات سے پاک فوج کو لیس کیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں 1989 میں ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ آپ واحد پاکستانی شہری ہیں جنہیں دو مرتبہ پاکستان کے سب سے بڑے سول اعزاز ’نشان امتیاز‘ سے نوازا گیا۔ پہلی مرتبہ 1996 میں صدر پاکستان فاروق لغاری نے ڈاکٹر قدیر خان کو ’نشان امتیاز‘ عطا کیا جبکہ دوسری مرتبہ 1999 میں نشان سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو یکم جنوری 2001 سے 31 جنوری 2004 صدر پاکستان جنرل مشرف کے مشیر برائے سائنسی پالیسی رہے اور اسی عرصے میں سکیورٹی حکام کی ایٹمی ٹیکنالوجی اور معلومات ایران کو فراہم کرنے کے حوالے سے شامل تفتیش بھی رہے اور بعدازاں کئی برس نظربندی برداشت کی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سیچٹ کے نام سے ایک این جی او بھی بنائی جو تعلیمی اور دیگر فلاحی کاموں میں سرگرم ہے جب کہ 2012 میں آپ نے ’تحریک تحفظ پاکستان‘ کے نام سے ایک سیاسی جماعت الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹرڈ کروائی۔
تحریک تحفظ پاکستان کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں تھا اور اس پارٹی نے 2013 کے ’میزائل‘ کے انتخابی نشان پر عام انتخابات میں حصّہ بھی لیا تاہم ستمبر 2013 میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے اس جماعت کو ختم کردیا۔ عبدالقدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران 1964 میں ہینی نامی مقامی خاتون سے شادی کی جو بعدازاں ہینی خان کے نام سے جانی گئیں۔ ہنی خان سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی دو بیٹیاں ہیں، بڑی بیٹی ڈاکٹر دینا خان اور جب کہ چھوٹی صاحبزادی کا نام عائشہ خان ہیں۔
ڈاکٹر خان نے ایک کتابچے میں پاکستانی اٹامک انجری کا حامل ملک سے متعلق تحریر کیا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سنگ بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اسے پروان چڑھایا۔ اپنی ایک اور کتاب میں انہوں نے کہوٹہ میں فرانسیسی فرسٹ سیکریٹری کی پٹائی کے حوالے سے لکھا کہ جب کہوٹہ میں ریسرچ لیبارٹری زیر تعمیر تھی تو وہ سہالہ میں پائلٹ پروجیکٹ چلارہے تھے اس دوران فرانسیسی فرسٹ سیکرٹری فوکو کہوٹہ کے ممنوعہ علاقے میں بغیر اجازت داخل ہوگئے جس پر انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ محسن پاکستان نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ مار پٹائی کے بعد پتہ چلا کہ فرانسیسی سیکریٹری امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے لیے کام کرتا تھا جس نے تہران میں اپنے سی آئی اے افسر کو لکھا کہ ’ کہوٹہ میں کچھ عجیب و غریب ہورہا ہے‘۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہالینڈ میں رہائش کے دوران ایٹمی معلومات چوری کرنے کے الزامات میں مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑتا تھا، یہ مقدمات ہالینڈ، جرمنی، بیلجیئم اور برطانیہ کے پروفیسرز کے الزامات کا جائزہ لینے کے بعد ختم ہوئے تھے۔