کویت اردو نیوز:
رمضان المبارک سال بھر کے اسلامی مہینوں میں سب سے زیادہ عظمتوں، فضیلتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو اپنی رضا، محبت وعطا، اپنی ضمانت واُلفت اور اپنے انوارات سے نوازتے ہیں۔ اس مہینہ میں ہر نیک عمل کا اجروثواب کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
اس ماہ میں جب ایمان اور احتساب کی شرط کے ساتھ روزہ رکھا جاتا ہے، تو اس کی برکت سے پچھلی زندگی کے تمام صغیرہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں، اور جب رات کو قیام (تراویح) اسی شرط کے ساتھ کیا جاتا ہے، تو اس سے بھی گزشتہ تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اس ماہ میں ایک نیکی فرض کے برابر اور فرض ستر فرائض کے برابر ہوجاتا ہے، اس ماہ کی ایک رات جسے شبِ قدر کہا جاتا ہے، وہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دی گئی ہے۔
رمضان کا روزہ فرض اور تراویح کو نفل(سنت مؤکدہ) بنایا ہے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے، اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور خیرخواہی کا مہینہ ہے، اس میں مؤمن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، اس میں روزہ افطار کرنے والے کی مغفرت، گناہوں کی بخشش اور جہنم سے آزادی کے پروانے کے علاوہ روزہ دار کے برابر ثواب دیا جاتا ہے، چاہے وہ افطار ایک کھجور یا ایک گھونٹ پانی سے ہی کیوں نہ ہو، ہاں! اگر روزہ دار کو پیٹ بھرکر کھلایا یا پلایا، تو اللہ تعالیٰ اسے حوضِ کوثر سے ایسا پانی پلائیں گے، جس کے بعد وہ جنت میں داخل ہونے تک پیاسا نہ ہوگا۔
اس ماہ کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے آزادی کا ہے۔ جس نے اس ماہ میں اپنے ماتحتوں کے کام میں تخفیف کی، تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ اس کی مغفرت اور اسے جہنم سے آزادی کا پروانہ دیں گے۔ پورا سال جنت کو رمضان المبارک کے لیے آراستہ کیا جاتا ہے۔ عام قانون یہ ہے، کہ ایک نیکی کا ثواب دس سے لے کر سات سو تک دیا جاتا ہے، مگر روزہ اس قانون سے مستثنیٰ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’روزہ صرف میرے لیے ہے، اور اس کا اجر میں خود دوں گا۔‘‘
روزہ دار کو دو خوشیاں ملتی ہیں: ایک افطار کے وقت کہ اس کا روزہ مکمل ہوا، اور دعا قبول ہوئی، اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے روزہ افطار کیا، اور دوسری خوشی جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات ہوگی۔ روزہ دار کے منہ کی بو (جو معدہ کے خالی ہونے کی وجہ سے آتی ہے) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے زیادہ خوشبودار ہے۔
روزہ اور قرآن کریم دونوں بندے کی شفاعت کریں گے، اور بندے کے حق میں دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔
* حدیث میں رمضان کے بارے 17 اہم ترین امور:
اب چند وہ امور عرض کئےجاتے ہیں، جن کا حضور کریمﷺ خود بھی اہتمام فرماتے، اور اُمت کو بھی اس کی تعلیم اور تلقین فرماتے تھے۔
1: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کی تاریخوں کی جس قدر نگہداشت فرماتے تھے، اتنا دوسرے مہینوں کی نہیں فرماتے تھے۔
2: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رمضان کی خاطر شعبان کے چاند کا اہتمام کیا کرو۔
3: رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کھانے کا حکم فرمایا کہ: ’’سحری کھایا کرو، کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔‘‘
اور فرمایا: ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘ یعنی اہلِ کتاب کو سوجانے کے بعد کھانا پینا ممنوع تھا، اور ہمیں صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے تک اس کی اجازت ہے۔
4: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے، جب تک کہ(غروب آفتاب کے بعد) افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔‘‘
افطار کی دعا: ’’ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَائَ اللّٰہُ۔‘‘۔۔۔۔۔ ’’پیاس جاتی رہی، انتڑیاں تربتر ہوگئیں اور اجر ان شاء اللہ ثابت ہوگیا۔‘‘
اسی طرح : ’’اَللّٰہُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ أَفْطَرْتُ۔‘‘
’’ اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا، اور تیرے رزق سے افطار کیا۔‘‘
5: رمضان میں ذکر کرنے والا بخشا جاتا ہے، اور اس ماہ میں مانگنے والا بے مراد نہیں رہتا۔
6: روزہ دار کی روزانہ ایک دعا قبول ہوتی ہے۔
7: رمضان میں روزانہ بہت سے لوگ دوزخ سے آزاد کیے جاتے ہیں۔
8: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے اخیرعشرہ میں خود بھی شب بیدار رہتے، اور اپنے گھر کے لوگوں کو بھی بیدار رکھتے۔
9: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شبِ قدر کو رمضان کے اخیر عشرہ میں تلاش کرو۔
10: جب لیلۃ القدر آتی ہے تو جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کی معیت میں نازل ہوتے ہیں، اور ہر بندہ جو کھڑا یا بیٹھا اللہ تعالیٰ کا ذکر کررہا ہو (اس میں تلاوت، تسبیح وتہلیل اور نوافل سب شامل ہیں، الغرض کسی طریقے سے ذکر وعبادت میں مشغول ہو) اس کے لیے دعائے رحمت کرتے ہیں۔
11: لیلۃ القدر کی دعا: ’’اَللّٰہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ۔‘‘ ۔۔۔۔’’اے اللہ! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں، معافی کو پسند فرماتے ہیں، پس مجھے بھی معاف فرمادیجیے۔‘‘
12: اگر کسی نے بغیر عذر اور بیماری کے رمضان کا ایک روزہ چھوڑدیا، خواہ وہ ساری زندگی روزہ رکھتا رہے، وہ اس کی تلافی نہیں کرسکتا۔
13: رمضان میں چار کام کثرت سے کیے جائیں:
دو کام جن سے اللہ راضی ہوتے ہیں:
(الف): ’’لاإلٰہ إلا اللّٰہ‘‘ کی کثرت،
(ب): استغفار زیادہ سے زیادہ پڑھا جائے۔
اور دو کام جو ہر انسان کی ضرورت ہیں:
(ج) اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کیا جائے،
(د) جہنم سے پناہ مانگی جائے۔
14: تراویح کے بارہ میں رسالت مآبﷺ کا ارشاد ہے: ’’جس نے ایمان کے جذبے سے اور ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا، اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے، اور جس نے رمضان (کی راتوں) میں قیام کیا، ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیت سے اس کے پہلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔‘‘
15: اعتکاف کے بارہ میں نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’جس نے رمضان میں (آخری) دس دن کا اعتکاف کیا، اس کو دو حج اور دوعمرے کا ثواب ہوگا۔ دوسری حدیث میں ہے، کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر ایک دن کا بھی اعتکاف کیا، اللہ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان ایسی تین خندقیں بنادیں گے، کہ ہر خندق کا فاصلہ مشرق ومغرب سے زیادہ ہوگا۔‘‘
16: رمضان میں قرآن کریم کا دور اور جودوسخاوت کی جائے، اس لیے کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم جود وسخا میں تمام انسانوں سے بڑھ کر تھے، اور رمضان میں نبی کریمﷺ کی سخاوت بہت بڑھ جاتی تھی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آکر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے۔
17: روزہ کی حالت میں بے ہودہ باتوں: مثلا: غیبت، بہتان، گالی گلوچ، لعن ، طعن، غلط بیانی، تمام گناہوں سے پرہیز کیا جائے، ورنہ سوائے بھوکا پیاسا رہنے کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اگر کوئی دوسرا آکر ناشائستہ بات کرے، تو یہ کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں، کیونکہ روزہ ڈھال ہے، جب تک کوئی اس کو پھاڑے نہیں، اور یہ ڈھال جھوٹ اور غیبت سے پھٹ جاتا ہے۔ یہ مہینہ گویا ایمان اور اعمال کو ریچارج کرنے کے لیے آتا ہے۔
رمضان المبارک کی بے شمار خصوصیتیں ہیں، جن میں چند ایک یہ ہیں:
(1) رمضان کا معنی:
رمضان عربی کا لفظ ہے، جس کا اُردو میں معنی ہی شدتِ حرارت کے ہیں، یعنی اس ماہ میں اللہ رب العزت روزہ کی برکت اور اپنی رحمتِ خاصہ کے ذریعہ اہلِ ایمان کے گناہوں کو جلا دیتے ہیں۔ اور ان کی بخشش فرمادیتے ہیں،
(2) رمضان میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں:
’’إذا دخل رمضان فُتحت أبواب السماء، وفی روایۃ: ’’فُتحت أبواب الجنۃ‘‘ وغُلقت أبواب جہنم ، وسُلسلت الشیاطین، وفی روایۃ ’’فُتحت أبواب الرحمۃ۔‘‘
(متفق علیہ، بحوالہ مشکوٰۃ، کتاب الصوم،ص:173)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جب رمضان آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، اور شیاطین جکڑ دیئے جاتے ہیں، اور ایک روایت میں بجائے ابوابِ جنت کے ابوابِ رحمت کھول دیئے جانے کا ذکر ہے۔‘‘
’’قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ یہ حدیث ظاہری معنوں پر بھی محمول ہوسکتی ہے، لہٰذا جنت کے دروازوں کا کھلنا، دوزخ کے دروازوں کا بند ہونا، اور شیطانوں کا قید ہونا، اس مہینے کی آمد کی اطلاع اور اس کی عظمت اور حرمت وفضیلت کی وجہ سے ہے. شیاطین کا بند ہونا، اس لیے ہوسکتا ہے، کہ وہ اہلِ ایمان کو وسوسوں میں مبتلا کرکے ایمانی وروحانی اعتبار سے ایذا نہ پہنچاسکیں۔
جیسا کہ دستورِ زمانہ بھی ہے، کہ جب کوئی اہم موقع ہوتا ہے تو خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں، تمام شرپسندوں کو قید کردیا جاتا ہے، تاکہ وہ اس موقع پر کوئی رخنہ وفتنہ پیدا نہ کریں، اور حکومت اپنے حفاظتی دستوں کو ہر طرف پھیلادیتی ہے، یہی حال رمضان المبارک میں بھی ہوتا ہے، کہ شیطانوں کو قید کردیا جاتا ہے۔ اور اس سے مجازی معنی بھی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ کیوں کہ شیاطین کا اُکسانا اس ماہ میں کم ہوجاتا ہے، اس لیے گویا وہ قید ہوجاتے ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے، کہ جنت کے دروازے کھولنے سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر طاعات اور عبادات کے دروازے اس ماہ میں کھول دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو عبادتیں کسی اورمہینے میں عام طور پر واقع نہیں ہوسکتیں، وہ عموماً رمضان میں بآسانی ادا ہوجاتی ہیں۔ یعنی روزے رکھنا، قیام کرنا، وغیرہ۔‘‘
(نووی شرحِ مسلم، از برکاتِ رمضان ، ص:44)